ممتاز قانون داں، انسانی حقوق کے علمبردار جسٹس ای اسماعیل ایک ہزار سے زائد کیسس کا فیصلہ کرنے والے سابق سیشن جج و معزز رکن انسانی حقوق کمیشن

   

ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
ہندوستان دنیا کا ایک ایسا کثیر الجہات، متنوع افکار و نظریات، مختلف مذاہب و ادیان کا حامل، جمہوری اور ایک سوتیس کروڑ آبادی والا ملک ہے، جہاں عدلیہ، عاملہ اور مقننہ کی تاریخ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی تابناک بھی ہے، جس کی خصوصیت اور تانے بانے کثیر التعداد برادران وطن کے ہمراہ اقلیتی طبقات بالخصوص مسلم قانونی ماہرین کے پیشہ وارانہ مہارت و دسترس، اختراعی فیصلے کی صلاحیتوں اور جدت آمیز قابلیتوں سے جڑے ہیں۔ انڈین سیول سرویسز، منصوبہ بندی اور انسانی حقوق کی بحالی کے لئے قائم شدہ اہم کارکرد اداروں میں اپنی اصول پسندی، انصاف رسانی، حق گوئی اور توازن عمل کی غیر معمولی صلاحیتوں اور اپنے طویل قانونی سفر کے ذریعہ دیدہ وری، دانش وری کا سکہ عوام اور عہدیداروں پر بٹھانے والی شخصیتوں میں ممتاز اور بلند پایہ قانون داں جسٹس ای اسماعیل صاحب شمار کئے جاتے ہیں، جنہیں منصف مجسٹریٹ، سینئر سول جج، چیرمین سنٹرل انڈسٹریل ٹریبونل، پرنسپل اینڈ ڈسٹرکٹ سشن جج کی حیثیت سے جہاں ایک ہزار سے زائد مقدمات فیصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے، وہیں دوسری طرف کنزیومرس فورم، ہیومن ویلفیر سوسائٹی، چیرمین میریج کونسلنگ سنٹر فار میناریٹی جیسے اداروں کے ذریعہ انسانی حقوق کی بحالی اور مختلف سرکاری و خانگی اداروں کہ ہزاروں ملازمین کے آئینی مراعات کے حصول اور صدہا افراد کی ذہنی و فکری انقلاب کی اصلاح کا سہرا آپ کے سر ہے۔ ایچ۔ ای ۔ ایچ دی نظامس فیملی ٹرسٹ اور نظامس جیلوری ٹرسٹ، آندھرا پردیش وقف بورڈ جیسے موقر ادارے بھی آپ کی گراں قدر آرا اور مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس وقت بھی جب کہ اپنی عمر کی 80 بہاریں دیکھ چکے ہیں قوم کی ترقی کے لئے تازہ دم اور گرم سفر ہیں۔

جناب ای اسماعیل کی پیدائش 5 جنوری 1941 عیسوی کو ایک کچھی میمن سنی حنفی گھرانے میں ہوئی۔ ان کے والد جناب اسحاق اسماعیل سیٹھ مدراس کے ایک کامیاب تاجر تھے، جو بنگلور میں سکونت اور شادی کے بعد حیدرآباد منتقل ہوکر نظام شوگر فیکٹری حیدرآباد مرکزی دفتر میں 1940 ء سے 1964 ء تک خدمت انجام دیتے رہے۔ جناب ای اسماعیل صاحب نے اپنی تعلیمی سفر کا آغاز حیدرآباد کے آل سینس ہائی اسکول سے کیا اور 1958ء میں وہیں سے HSC کا امتحان کامیاب کیا۔ ذہانت و محنت نے ان کے اساتذہ بند و راو صاحب، پنڈت بلگرامی صاحب، خواجہ صاحب، انصاری صاحب، اصغر علی صاحب، برادر جابن آف گاڈ کو ان پر شفیق و مہربان بنا دیا۔ بعد ازاں سیف آباد کالج سے 1959ء میں PUC اور 1962 ء میں نظام کالج سے B.Sc کی تکمیل کی۔ 1964 ء میں لا کالج عثمانیہ یونیورسٹی سے LL.B کی ڈگری لی۔ دو سال تک پیپلز ٹیٹوریل کالج حیدرآباد سے بحیثیت معلم وابستہ رہے۔ 1966 ء سے بعض نامور وکلاء جناب عبدالواحد اویسی، جناب جلیل احمد، جناب ویریندر بہادر سہگل، جناب حسن عابد علی، جناب منور علی بیگ کے تحت جونیر ایڈوکیٹ کارکرد رہے۔ جنوری 1969 ء سے کاچی گوڑہ میں اپنے دفتر وکالت سے آزادانہ طور پر پریکٹس کا آغاز کیا۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کے سلسلہ میں ہائی کورٹ بھی آنا جانا رہا۔ 1972 ء میں منصف مجسٹریٹ کے لئے PSC کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد باضابطہ 8 نومبر 1973 ء منصف مجسٹریٹ کے معزز عہدہ پر ضلع میدک میں آپ کا پہلا تقرر عمل میں آیا۔ پانچ سال بعد مشرقی گوداوری کے راجول میں بحیثیت سول جج مقرر ہوئے۔ تین سال بعد تنکوشہر میں تبادلہ کے بعد چیف جسٹس کپو سوامی کور اہیما پر جگتیال ضلع کریم نگر میں قائم ہونے والے تلنگانہ کے اولین سب کورٹ میں پہلے پریسائڈنگ آفیسر مقرر ہوئے۔ اپریل 1982 ء میں تبادلہ نے آگے مزید ترقی کی راہیں کھول دیں۔ 1983 ء میں جناب ای اسماعیل صاحب کو سشن جج اینٹی کرپشن بیورو کے عہدہ پر ترقی دی گئی۔ اس دوران کئی قسم کے کیس میں فیصلے صادر کرنے کا موقع ملا۔ ’’شبات ایک تغیر کو ہے زمانہ میں‘‘ کے تحت ایک سال بعد ہی اپریل 1984 ء میں جج صاحب کا تبادلہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سشن جج ضلع سری کاکولم کے معزز عہدہ پر ہوگیا۔ یہاں منصفانہ خدمات انجام دیتے ہوئے ایک مسجد کی دس ایکڑ اراضی کو محکمۂ زراعت کے حسن تعاون سے قانونی طور پر محفوظ کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا۔

چند مہینے بعد نظام آباد تبادلہ عمل میں آیا، جہاں عدل و انصاف کو روبہ عمل لاتے ہوئے جج صاحب نے مستحق افراد کو ان کی اراضیات کا معقول معاوضہ دلایا جو پوچم پاڑ پراجکٹ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں حصہ لیتے ہوئے کئی شعری و ادبی محفلوں کی زینت بنے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہتاپانی اور چلتی گاڑی کبھی خراب نہیں ہوتے۔ جس طرح مبادلہ آدمی کے ساتھ ساتھ رہتا ہے، اسی طرح تبادلہ بھی سرکاری ملامم کی زندگی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے، چنانچہ نظام آباد میں تین سال مسلسل خدمت انجام دینے کے بعد ای اسماعیل صاحب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ وسیشن جج کے معزز عہدہ پر ہی تبادلہ کے ساتھ محبوب نگر منتقل ہوئے۔ محبوب نگر میں ملازمت کے ساتھ شعریت و ادبیت کا ایک نہایت اعلیٰ مذاق اور ماحول ملا، وہاں کے ممتاز قانون دانوں نصرت فاروقی، مسعود فاروقی اور جناب الطاف حسین صاحبان سے پرلطف اور خوشگوار ملاقاتوں کے علاوہ وہاں کے سنجیدہ اور باذوق ادباء و شعراء کے ساتھ بزم یار ان سخن سجی اور خوب سجی۔ قانون کے ساتھ قاف و نون کے ردیف اور قافیے تھے۔ اسی دوران 1989 ء میں جج صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ حج بیت اللہ و زیارت نبویؐ سے مشرف ہونے کے بعد عراق کے مقامات مقدسہ کی زیارت اور بارگاہِ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے محترم سجادہ نشین کی مہمانی میں اہم مقاماتِ تاریخ کی سیر کی۔ حج وزیارت سے واپسی کے بعد جسٹس یوگیشور دیال صاحب نے جج صاحب سے خواہش کی کہ وہ ان کے لئے دعا کریں کہ وہ سپریم کورٹ کے جج بن جائیں۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک حاجی جج کی دعا قبول ہوئی اور یوگیشور دیال صاحب سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ 1989 ء میں کریم نگر اور چند ماہ بعد ہی مارچ 1990 ء میں جج صاحب حسبِ معمول اپنے صاف و شفاف شیریں چشمۂ انصاف سے سیراب کرنے کے لئے بحیثیت پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سشن جج، ورنگل مامور ہوئے۔ ورنگل میں بحیثیت جج کئی فیصلوں میں ایک فیصلہ ایسا بھی آیا، جس کی بنیاد پر کھانے پینے کی اشیاء پر ان کے بنائے جانے اور مدتِ استعمال ختم ہونے کی تاریخوں کے درج کرنے کا قانون بنانے کا سبب بنا۔ 1992ء میں جج صاحب کو نیلور تبادلہ کے ذریعہ آب و ہوا کو تبدیل کرنے کا موقع دیا گیا۔ دو سال تک سرزمین نیلور پر محکمہ کی نیک نامی، اعلیٰ کارکردگی اور حسن انصاف رسانی کے نقش بٹھانے کے بعد اپنے پیدائشی وطن حیدرآباد آگئے اور انڈسٹریل ٹریبونل کے چیرمین کے باقاعدہ عہدہ پر فائز ہونے۔ 1996 ء میں عدالت العالیہ کے جاری کردہ احکام کے تحت آندھرا پردیش وقف بورڈ کا معزز ممبر سکریٹری مقرر کیا گیا، لیکن چار ماہ بعد ہی سابقہ عہدے پر دوبارہ فائز کردیئے گئے۔ جسٹس ای اسماعیل صاحب کی طویل تاریخ ملازمت کئی اعزازات سے معمور ہے اور یہ اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے کہ آندھرا پردیش کی تاریخ میں وہ پہلے مسلمان ہیں جنہیں نام پلی کریمنل کورٹ میں میٹرو پالیٹن سشن جج مقرر کیا گیا۔ اس دوران انہوں نے اپنے عہدہ سے انصاف کرتے ہوئے نہ صرف فیصلے سنانے پر اکتفا کیا، بلکہ مجرموں کی ذہنی، فکری، اخلاقی اصلاح کے اقدامات بھی کئے۔ مئی 1998ء میں کرنول تبادلہ کے دوران ایک قتل کے مقدمہ میں عمر قید کی سزا سناتے وقت جج صاحب کا احساس بھی تھا کہ صرف ڈگریاں حاصل کرلینے سے کچھ نہیں ہوتا، انسان کی اخلاقی تربیت بہت ضروری ہے۔ کرنول میں سائی بابا مندر میں ایک ہال کی تعمیر کے سلسلہ میں مقدمہ کا فیصلہ بھی تاریخ ساز رہا۔ اگست 1999 ء میں چیرمین انڈسٹریل ٹریبیونل کی حیثیت سے ریڈی ریسرچ لیباریٹری، کنٹری کلب حیدرآباد، آر ٹی سی وغیرہ کے معاملات میں آپ کے فیصلے تاریخ ساز رہے۔ 30 جون 2000 ء جج صاحب وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے، لیکن چیف جسٹس مسٹر لبرہان کی خصوصی تجویز پر سنٹرل انڈسٹریل ٹریبیونل کے پریسائڈنگ آفیسر کے عہدے سے 5 جون 2005 ء کو پھر ریٹائرڈ ہوئے، پھر 2 اگست 2005ء انسانی حقوق کیشن کے معزز ممبر رہے اور 4 جون 2010 ء کو وظیفہ پر علیحدہ ہوئے۔ ان کا یہ تیسرا ریٹائرمنٹ تھا۔ آج بھی آپ مختلف اداروں سے وابستہ ہیں۔ آپ کی مسلسل، ہمہ جہت، ہمہ نوع، ہمہ پہلو سماجی، علمی، ادبی، انسانی اور اصلاحی خدمات کو انجام دیتے ہوئے لگتا ہے کہ آپ آرام کے لئے نہیں کام کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔