ممتاز محقق ،ادیب پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالمجید صدیقی نظامی

   

ڈاکٹر حافظ
محمد صابر پاشاہ قادری

قوموں کے عروج و ارتقاء میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیق اور تنظیم کا بھی عمل دخل ہے ۔ جس قوم میں یہ انفرادی خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں، اس قوم کی بہتری، برتری اور نیک نامی کا سکہ دنیا کی دوسری قوموں پر بیٹھ جاتا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں نے وطن عزیز کے مادی، معاشی، سماجی اور تیکنیکی عنصر میں مذہبی، ادبی، قانونی سچائیوں کے ساتھ بھرپور حصہ لے کر ملک و قوم کا نام عالمی نقشہ میں بلندکرنے کیلئے ترنگے میں اپنا لہو ملا دیا اور اپنی علمی ، فکری تحقیق جولانیوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے فرزندان و دختران قوم کو تعلیم و تحقیق سے منور و تابناک کرتے ہوئے فن و ہنر کے ہیرے تراشنے والی ہستیوں میں ممتاز ماہر تعلیم، ادیب عصر، خطیب دہر پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالمجید صدیقی نظامی شمار کئے جاتے ہیں جو علمی و ادبی دنیا میں ایک قدآور دیدہ ور، الفاظ کے شناور، معانی کے پیکر اور نامور حیثیت کے مالک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ایک طرف بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبول و معروف دینی دانش گاہ جامعہ جیسی دانش گاہ کے فارغ التحصیل اور سند یافتہ ہیں تو دوسری طرف عصری علوم میں عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی جیسی اعلیٰ ڈگریوں کے حوالے سے طویل تعلیمی بے داغ ریکارڈ کے علاوہ 40 سالہ ادب عربی کے تدریسی تجربہ کے حامل ہیں۔ آپ کے زیرنگرانی تقریباً 50 طلبہ و طالبات نے ایم فل اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور امریکہ، انگلینڈ جرمنی، سعودی عرب، مصر، کویت، متحدہ عرب امارات، قطر اور عمان میں اعلیٰ خدمات پر فائز ہوکر اپنی اور اہل خانہ کی بنیادی ضرورتوں کی عزت دارانہ کفالت میں مصروف ہیں۔ آپ کی طویل تدریسی تحریری خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدرجمہوریہ ہند ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کی حیرت انگیز شخصیت اور جامع فکر کا بغور مطالبہ کیا جائے تو تعلق مع اللہ، اعتدال و توازن، ماضی سے وابستگی اور حمیت و جرأت مندی، وہ چار عناصر قرار دیئے جاسکتے ہیں جن کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کے اجزاء بھی ہیں اور ان کی جامع فکر کے بنیادی محور بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب کی فکر کو سمجھنے کیلئے جو شخص بھی سنجیدگی اور غیرجانبداری کے ساتھ ان کی ادبی، دینی، سماجی، فلاحی خدمات کا جائزہ لے گا، اس کے سامنے یہی چار عناصر ابھر کر آئیں گے جن کو وہ فکر عبدالمجید کی بنیاد قرار دے گا۔ ہر حال اور ہر صورت میں سنن و نوافل اور ادو وظائف، اذکار وادعیہ اور مطالعہ قرآن و حدیث کی مکمل پابندی تو دوسری طرف معاملات آپسی لین دین، ماتحتوں کے حقوق، تلامیذ سے انصاف، رشتے داروں کے حقوق، مہمان نوازی کے آداب اور ملاقات کے آداب وغیرہ میں بھی کبھی فرق نہ آتا۔
آپ کا اسم گرامی محمد عبدالمجید اور والد گرامی کا نام حضرت محمد کریم الدین ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب صدیقی ہے۔ خاندانی قضأت کی وجہ سے آپ قاضی کہلاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 1950ء میں ہوئی۔ جامعہ نظامیہ میں 14 سال تک بحیثیت استاذ و نائب شیخ الادب تدریسی فرائض دیئے۔ اس کے ساتھ نوریہ عربک کالج بنڈلہ گوڑہ میں بحیثیت لیکچرر خدمت انجام دینے کے بعد 7 سال سعودی عربیہ رائل کمیشن پنسوع میں مترجم رہے۔ واپسی پر 1989ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بحیثیت پروفیسر عربی وابستہ ہوئے۔ صدر شعبہ عربی یونیورسٹی ہوکر وظیفہ یاب ہوئے۔ وظیفہ یابی کے بعد بھی یونیورسٹی آپ کی خدمات سے استفادہ کررہی ہے۔ آپ عوام و خواص اور حکومتی سطح پر عربی ادب کی ماہر شخصیت ہیں۔ یہی وجہ سے 2000ء تا 2005ء مکمل پانچ سال عربی مخطوطات کی اشاعت و طباعت کا بین الاقوامی مشہور ادارہ دائرۃ المعارف العثمانیہ جس کے بانی حضرت شیخ الاسلام و المسلمین عارف باللہ امام اہل سنت الامام الحافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ الرضوان بانی جامعہ نظامیہ ہیں کے آپ ڈائریکٹر رہے۔ آپ کے 25 سے زائد مقالے بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے۔ جامعہ عثمانیہ سے شائع ہونے والے مجلہ ’’التنویر‘‘ کے بھی آپ مدیر رہے۔ انجمن طلبائے قدیم جامعہ نظامیہ کے تقریباً 15 سال صدر و سرپرست رہے ہیں۔ مہمان حج و زیارت اسلامی معلومات عامہ، مجموعہ احادیث کا ترجمہ بھی آپ نے کیا۔ آپ جامعات میں بحیثیت ریسورس پرسن اور سنٹرل انسٹیٹیوٹ آف انگلش اینڈ فارن لینگویجس میں بحیثیت اسوسی ایٹ مدعو ہوئے۔ آپ کو 2010ء میں راشٹرپتی ایوارڈ بطور اعتراف عربی خدمات دیا گیا۔ قرآن سوسائٹی خواجہ کا چھلہ، مغلپورہ حیدرآباد میں ہر چہارشنبہ کو بعد نماز مغرب تقریباً دو دہے سے زائد عرصہ سے درس قرآن کا سلسلہ قائم ہے۔ تئیس سال سے زائد عرصہ سے جامع مسجد امیرپیٹ میں جمعہ کی خطابت فرماتے ہیں۔ نیز گھر میں ماہانہ محفل ذکر بھی ہوتا ہے۔ آپ حج و زیارت روضۃ رسول مکرمؐ سے بھی مشرف ہوئے۔