منافرت اور تقسیم کی سیاست

   

جیسے جیسے ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات اور اس کے چند ماہ بعد پارلیمانی انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے ویسے ویسے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے اور فرقہ وارانہ منافرت اور تقسیم کو ہوا دینے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ ملک کے کسی نہ کسی گوشے سے فرقہ پرستی کے اقدامات و بیانات کا سلسلہ چل پڑا ہے ۔ اشتعال انگیز تقاریر میں اضافہ ہوگیا ہے اور سماج کو بے چینی کا شکار کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے اور انتخابی کامیابی کو یقینی بنانے کے منصوبوں پر عمل آوری شروع کردی گئی ہے ۔ کہیں پرسکون ماحول اگر برقرار ہے تو اسے درہم برہم کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ سارا کچھ انتہائی منفی سوچ و فکر کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو متاثر کرتے ہوئے عوام کو بنیادی مسائل سے بھٹکانے کیلئے ایسا ہو رہا ہے ۔ آج ملک میں جس طرح کو مسائل درپیش ہیں ان پر ملک کے نوجوانوں کو سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت تھی ۔ جب سے کرناٹک میں کانگریس کو کامیابی ملی ہے تب سے بی جے پی کی نیند اڑنے لگی تھی ۔ اس کے بعداپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ یہ اتحاد ایک شکل اختیار کرچکا ہے ۔ اس میں مزید پیشرفت ہونے لگی ہے ۔ اس وقت سے ہی بی جے پی نے نے بھی جوابی کارروائیوں کا آغاز کردیا ہے ۔ ایک اکیلا سب پر بھاری کا نعرہ دینے والی بی جے پی خود اب اپوزیشن اتحاد سے زیادہ جماعتوں کو اپنے اتحاد میں شامل کر رہی ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے منصوبے شروع کردئے گئے ہیں۔ ہریانہ کے نوح اور دیگر ٹاؤنس میں کشیدگی پیدا کرتے ہوئے تشدد کو ہوا دی گئی ۔ ملک کا گودی اور زر خرید میڈیا بھی حکومت کے منصوبوں میں شامل ہوتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام کرنے میں مصروفہوگیا ہے ۔ تلوے چاٹنے والے اینکرس کی بکواس بھی ٹی وی چینلوں پر شروع ہوگئی ہے ۔ اس سب کا مقصد ملک کے نوجوانوں کے ذہنوں کو ممکنہ حد تک زہر آلود کرنا ہی ہے ۔ اسی زہر آلود سوچ کے ذریعہ بی جے پی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔
ہریانہ کی صورتحال کو بگاڑنے کے بعد تریپورہ میں بھی حجاب کا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ وہاں بھی ایک اقلیتی اسکول کے طلبا کو حجاب استعمال کرنے پر زد و کوب کا نشانہ بنایا گیا ۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں بھی سوشیل میڈیا کے ذریعہ افواہیں پھیلاتے ہوئے ماحول خراب کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ہریانہ واقعات کو ایک ہی رنگ میںتوڑ مروڑ کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ سیاسی لڑائی کو مذہب سے جوڑتے ہوئے منافرت کی راہ اختیار کی جا رہی ہے جو انتہائی افسوسناک عمل ہے ۔ ملک میں انتخابات ہر پانچ سال میں ہوتے ہیں۔ ہر سال کچھ اسمبلیوں کے انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہمیشہ ملک کے ماحول کو خراب کرنے کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ مختلف قائدین کی جانب سے اشتعال انگیز تقاریر الگ سے کی جا رہی ہیں۔ دہلی کے فسادات کو ہوا دینے کے الزامات کا سامنا کرنے والے کپل مشرا کو دہلی پردیش بی جے پی کا نائب صدر بنادیا گیا ہے ۔ اس طرح کی سیاست انتہائی منفی اور جنونی سوچ کا نتیجہ ہے ۔ سیاسی کامیابی کیلئے عوام کی تائید حاصل کرنے ایسی کوششیں تیز ہو گئی ہیں کہ عوام کی توجہ بنیادی مسائل سے ہٹ جائے ۔ انہیں مذہبی استحصال کا شکار کرتے ہوئے خود ان کے اپنے حقوق کے تعلق سے بیگانہ کردیا جائے ۔ بی جے پی کو یہ یقین ہے کہ عوامی مسائل اور حکومتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر اگر انتخابات لڑے جائیں تو پھر اسے کامیابی حاصل کرنی مشکل ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی جنون کو ہوا دی جا رہی ہے ۔
ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور یہاں کی روایات سب کیلئے زیادہ اہمیت کی حامل ہونی چاہئے ۔ سیاسی مفادات کیلئے سماج کے مختلف طبقات کے مابین نفرت کو ہوا دینے کی پالیسی ملک کے مفادات کے مغائر ہے ۔ اس سے بی جے پی یا کسی اور کے سیاسی مفادا ت کی تکمیل تو ہوسکتی ہے لیکن اس سے ملک کے مفادات کی تکمیل نہیں ہوگی ۔ فرقہ وارانہ کشیدگی ہر سماج اور ہر ملک کے مفادات کے مغائر ہوتی ہے ۔ منفی سوچ کے ساتھ اس طرح کی سیاست کرنے والوں کو سبق سکھانے عوام کو آگے آنے کی ضرورت ہوگی ۔ مثبت سوچ اور بہتر منصوبوں کو قبول کرتے ہوئے منفی سوچ اور نفرت کی سیاست کو عوام کو مسترد کرنا چاہئے ۔