مندر کے افتتاح پر بھی سیاست

   

ایودھیا میں رام مندر کا افتتاح 22 جنوری کو ہونے والا ہے ۔ اس افتتاحی تقریب کیلئے بڑے پیمانے پر تیاریاں ہونے لگی ہیں۔ حالانکہ یہ مندر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس میں سیاسی جماعتوںیا حکومتوں کا کوئی رول نہیںہے اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اس افتتاحی تقریب کو بھی سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے سے باز نہیں آرہی ہے ۔ ملک کی مختلف شخصیتوں کو رام مندر کے افتتاح کیلئے مدعو کیا گیا ہے ۔ کئی سیاسی قائدین بھی ان میں شامل ہیں۔ حالانکہ مندر کی تعمیر اور دیکھ بھال کیلئے ایک ٹرسٹ موجود ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی نے سارے معاملہ کو یرغمال بنالیا ہے ۔ ٹرسٹ کو بھی بی جے پی کی جانب سے استعمال کیا جا رہا ہے اور رام مندر کی افتتاحی تقریب کیلئے شرکت کرنے اور نہ کرنے والوںکو سیاسی اعتبار سے نشانہ بنانے کی مہم بھی شروع کردی گئی ہے ۔ مذہبی اور مندر وغیرہ خالصذاتی معاملے ہیں اور ان کا سیاست میں کوئی رول نہیں ہونا چاہئے ۔ ہندو برادری کیلئے یہ ایک بڑا موقع ہے تاہم اس کا سیاست کیلئے استعمال نہیںکیا جانا چاہئے جو بی جے پی شروع کرچکی ہے ۔ کئی سیاسی قائدین کو دعوت نامے حالانکہ ٹرسٹ کی جانب سے جاری کئے گئے ہیں اور ٹرسٹ ہی نے سبھی کو مدعو کیا ہے لیکن اس پر بی جے پی کی جانب سے جس طرح کی بیان بازیاں کی جا رہی ہیں وہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کے سواء کچھ نہیں ہے ۔ مندر جانا یا نہ جانا ‘ افتتاحی تقریب میںشرکت کرنا یا نہ کرنا سبھی کا ذاتی معاملہ ہے ۔ مذہب ہر ایک کے دل کا خالص شخصی اور ذاتی معاملہ ہونا چاہئے ۔ ہندوستان کا جو دستور ہے اس کے مطابق یہاں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہئے ۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ ساری بی جے پی اور حکومت اس معاملہ کو اپنا اولین فریضہ بناتے ہوئے اس کے ذریعہ آئندہ انتخابات میںسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو نشانہ بنانے کیلئے افتتاحی تقریب کو ایک حربہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور انہیں ایک مخصوص مذہب کے مخالف قرار دینے کی مہم بھی کچھ گوشوں کی جانب سے انتہائی منظم انداز میں شروع کردی گئی ہے ۔
جہاں تک رام مندر مسئلہ کا سوال ہے یہ ہمیشہ ہی بی جے پی کیلئے سیاسی فائدہ کا ذریعہ بنا رہا ہے ۔ مندر کے مسئلہ پر ہندو برادری کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے اور انہیں بھڑکاتے ہوئے بی جے پی نے اپنا سیاسی سفر طئے کیا ہے اور اسی کے ذریعہ وہ اقتدار تک پہونچی ہے ۔ اقتدار پر پہونچنے کے بعد کئی طرح کے نزاعی مسائل کو ہوا دی گئی ہے کیونکہ رام مندر کا مسئلہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہونچ چکا ہے ۔وہاں مندر تعمیر ہو رہا ہے ۔ حالانکہ ابھی مندر کی تعمیر پوری نہیں ہوئی ہے اور خود ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ اس کیلئے مزید دو برس کا وقت درکار ہوگا ایسے میں بی جے پی نے پارلیمانی انتخابات میںسیاسی فائدہ حاصل کرنے کے مقصد سے قبل از وقت افتتاحی تقریب کو یقینی بنایا ہے ۔ یہ ٹرسٹ کا اختیار ہے کہ وہ کسی بھی وقت مندر کے افتتاح کو یقینی بنائے اور تعمیر کی نگرانی کرے ۔ تاہم بی جے پی اس ٹرسٹ کے ذمہ داروں پر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ آر ایس ایس کو استعمال کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اور افتتاحی تقریب کو ایک طرح سے آر ایس ایس اور بی جے پی کے کنٹرو ل والی تقریب بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سیاسی قائدین کو جو مندر کے افتتاح میں شرکت کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن تقریب میں شرکت سے انہیں گریز ہوسکتا ہے ۔ وہ رام مندر کے مخالف تو نہیں ہوسکتے لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی کے ساتھ کھڑے ہونا بھی ان کے سیاسی نظریات کیلئے مناسب نہیں ہوسکتا ۔ بی جے پی اسی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
بی جے پی اور اس کے قائدین کی جانب سے بالواسطہ نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ جو لوگ افتتاحی تقریب میں شرکت نہیں کرینگے انہیں اس کا نقصان بھی ہوسکتا ہے ۔ یہ ایک طرح سے سیاسی دھمکی کہی جاسکتی ہے جو بی جے پی اپنی مخالف جماعتوں کو دینے پر اتر آئی ہے ۔ رام مندر کیلئے جو ٹرسٹ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق بنایا گیا ہے اس کو اس معاملہ میں پوری ذمہ داری سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ کسی کو بھی مندر یا مندر کے امور سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع نہیںدیا جانا چاہئے ۔ مذہبی امور یا اعتقاد کو سیاسی فائدہ کیلئے استعمال کرنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جانی چاہئے چاہے وہ برسر اقتدار جماعت ہی کیوں نہ ہو۔