منی پور واقعہ انتہائی شرمناک

   

شمال مشرقی ریاست منی پور گذشتہ کئی ہفتوں سے جل رہی ہے ۔ وہاں قبائلی اور نسلی تشدد نے بے تحاشہ تباہی مچائی ہے ۔ وہاں ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس کی ہمارے ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال انتہائی ابتر ہوچکی ہے جبکہ خود بی جے پی سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحا ل پوری طرح ٹھپ ہوچکی ہے اور وہاں حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ ریاست میں مرکزی وزیر کے مکان کو حملہ کا نشانہ بنایا گیا وہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور اس طرح کے بے شمار واقعات پیش آئے ہیں جب سرکاری عہدیدار اور ریاستی سیاسی قائدین کو عوام کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ چیف منسٹر منی پور کی جانب سے مسلسل یہ دعوی کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے حالات کو بہتر بنانے کیلئے بہت کچھ کیا ہے تاہم اس کے اثرات زمین پر دکھائی نہیں دے رہے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اس طرح کے واقعات پیش آرہے ہیں جن سے تشدد کی ہولناکیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ کئی مکانات وہاں نذر آتش کردئے گئے ہیں۔ کئی بستیاں اجاڑ دی گئی ہیں۔ درجنوں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ہزاروں افراد بے گھر اور بے سہارا ہوگئے ہیں ۔ انہیں ریلیف کیمپوں کو منتقل کیا جانا پڑا ہے ۔ خوف کے سائے میں لوگ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ وہاں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ پل ہی کیا کچھ ہونے والا ہے ۔ اس صورتحال سے نمٹنے میں مرکزی اور ریاستی دونوںہی حکومتیں ناکام ہوچکی ہیں۔ اب جو تازہ ترین واقعہ سامنے آیا ہے وہ انتہائی شرمناک اور بہیمانہ کہا جاسکتا ہے ۔ یہ واقعہ ہندوستان کی روایات اور یہاں کی تہذیب کیلئے ایک کلنک اور دھبہ سے کم نہیں ہے ۔ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں خواتین کی زبردست عزت کی جاتی ہے ۔ ان کا احترام کیا جاتا ہے ۔ ان کی ایک طرح سے پوجا کی جاتی ہے ۔ انہیں یوی بھی کہا جاتا ہے لیکن اسی ہندوستان کی ایک ریاست میں نسلی تعصب کی وجہ سے خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروائی گئی ہے اور حکومتیں اب تک بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی رہیں۔
ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی جو ہر چھوٹی موٹی بات پر رد عمل ظاہر کرنے میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ ہر مسئلہ پر ٹوئیٹ کرتے ہیں اور واہ واہی بٹورنے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے اور اس کیلئے دوسرے وزراء تک کی ذمہ داریاں خود نبھاتے ہیں منی پور کے مسئلہ پر انہوں نے مسلسل اور طویل خاموشی اختیار کی ہوئی تھی ۔ آج تک وزیر اعظم نے منی پور کی صورتحال پر کوئی ٹوئیٹ کیا اور نہ ہی کوئی بیان دیا اور نہ ہی انہوں نے منی پور کا دورہ کرکے حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی ۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے ضرور منی پور کا دورہ کیا اور منی پور کے مسئلہ کئی اجلاس منعقد کئے ۔ ایک کل جماعتی اجلاس بھی منعقد کیا گیا لیکن ریاست کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ حالات قابو میں آنے کی بجائے بگڑتے ہی چلے گئے ہیں۔ اب جبکہ دو خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروانے کا واقعہ پیش آیا ہے اور اس پر سارے ملک میں برہمی کی لہر پیدا ہوگئی ہے تو وزیر اعظم نے ایک بیان دینا ضروری سمجھا ۔ انہوں نے اب بھی ریاست کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کسی منصوبہ کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ وہ خود منی پور جا رہے ہیں۔ اب حکومت حرکت میں آئی بھی ہے تو اس لئے کہ وہ اس طرح کے واقعہ کی روک تھام پر کوئی کارروائی کرنے یا کسی منصوبہ کا اعلان کرنے کی بجائے ٹوئیٹر کے خلاف کارروائی کا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔ ٹوئیٹر نے اس واقعہ کا ویڈیو پیش کیا تھا اور اسے فوری طور پر حذف نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے حکومت اب اس پر بھڑاس نکال رہی ہے ۔
یہ تاثر مل رہا ہے کہ حکومت اس طرح کے شرمناک واقعہ پر حرکت میں نہیں آئی ہے بلکہ اسے زیادہ غصہ ٹوئیٹر پر ہے جس کے ذریعہ یہ ویڈیو سارے ملک میں وائرل کردیا گیا تھا ۔ ٹوئیٹر کو یہ ویڈیو پیش کرنا چاہئے تھا یا نہیں یا اسے فوری اسے حذف کردینا چاہئے تھا یہ زیادہ اہم نہیں ہے بہ نسبت اس کے کہ ریاست کی صورتحال کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔ ریاست میں لا اینڈ آرڈر کو بحال کیا جائے ۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت کی جائے اور وہاں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنایا جائے ۔ صرف خفت مٹانے کسی کو نشانہ بنانا درست نہیں ہے ۔ حکومت کو فوری حالات کو معمول پر لانے عملی طور پر سرگرم ہونا چاہئے ۔