موجودہ دور صدی کا مصائب زدہ دور

   

پروین کمال
موجودہ دور اس صدی کا سب سے زیادہ مصائب زدہ دورکہلایا جائے گا جس میں سانس لینے والے تمام انسان اپنی زندگیوں کوہمیشہ خطرات کے درمیان کھڑا محسوس کررہے ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوران مل کر بھی دنیا کو ان خطرات سے بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اب ان حالات کے پیش نظر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ طبقات جو حالات کی زد میں آکر زندگی کی ہر ضرورت سے محروم ہوچکے ہیں وہ جائیں تو آخر جائیں کہاں؟۔ ان بے گھر افراد کو کوئی سہارانہ ملنے کی وجہ سے وہ غیر قانونی تحریکات پر اُتر آئے ہیں۔ گذشتہ ادوار میں احتجاجی تحریکات کے ذریعہ بہت کچھ منوایا گیا تھا لیکن حالیہ دور میں ان تمام تحریکات کو طاق نسیاں کردیا گیا ہے۔ آج کا انسان اُصول کی جنگیں اور حق و انصاف کیلئے آواز بلند کرنا بھول چکا ہے۔ ان محروم افراد کے ذہنوں میں ایک ہی بات گرد ش کررہی ہے کہ کسی طرح غیرقانونی طریقہ سے وہ سب کچھ حاصل کرلیا جائے جو وہ چاہتے ہیں، ان کی یہی سوچ دنیا کے امن و سکون کو متزلزل کررہی ہے۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے یورپ کا ماحول بھی بہت زیادہ متاثر ہورہا ہے۔ وہ ملک جو جنگ یا خانہ جنگی کی زد میں ہیں وہاں سے پناہ گزینوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بموجب یورپ کا رُخ کرنے والے افراد میں چند ایسے بھی ہیں جو اعلیٰ پیمانے پر زندگی گذارنے کے شوق میں چلے آتے ہیں اور جو حقیقت میں ضرورت مند ہیں ان کی دادرسی نہیں ہوتی۔ امدادی کیمپوں میں ہجوم کی وجہ سے ’ خسرہ ‘ جیسی مہلک بیماری پھیل رہی ہے۔ پناہ گزینوں میں زیادہ تعداد افریقہ کے مختلف شہروں سے آنے والوں کی ہے، ان کے علاوہ یوکرینی جنگی پناہ گزین بھی ہیں نیز دیگر ممالک سے بھی یلغار ہے۔ یوکرینی پناہ گزینوں کے ساتھ اس احساس کے تحت ان کے کیس کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کہ وہ میزائیلی جنگ کا شکار ہیں اور ان کی زندگیوں کو وہاں بہت زیادہ خطرہ تھا لیکن دیگر ممالک زیادہ ہنگامی حالات سے نہیں گذررہے ہیں اسی لئے انہیں روکنے کیلئے سخت انتظامات کئے جارہے ہیں۔ اس سال پناہ گزینوں کی تعداد میں 80 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور یہ کوئی معمولی اضافہ نہیں ہے۔ یہ افراد سمندری راستہ سے یورپ کے کسی نہ کسی ملک پہنچ جاتے ہیں۔ کسی ضابطہ یا کسی قانون پر وہ عمل کرنا نہیں چاہتے چاہے کتنے ہی خطرات سے گذرنا پڑے وہ یورپ تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ سرحدوں سے تھوڑی دوری پر تار کانٹوں کی دیواریں لگائی جارہی ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کے بموجب دراصل یہ مشکلات دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کے باعث پیدا ہورہی ہیں۔ اس بات کی پیشن گوئیاں برسوں سے ہورہی ہیں کہ اگر آبادی کا گراف اسی رفتار سے بڑھتا رہا تو قحط سالی کی زد میں بہت سارے ملک آسکتے ہیں کیونکہ تحریکات کے بعد یہ نتائج سامنے آرہے ہیں کہ دنیا کی آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اتنا ہی خوراک کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔ آبادی کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو اس فہرست میں براعظم افریقہ کا نام سرفہرست ہوگا، وہاں کی عورتیں حسب رواج سات سے آٹھ بچے پیدا کرتی ہیںخواہ ملک میں قحط پڑ جائے یاپھر پانی کی ایک بوند بھی نہ ملے لیکن یہ وہاں کا دستور ہے اور اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، یوںدنیا کی مجموعی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے۔ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد میں زیادہ تر افریقی باشندے ہی ہیں۔ اب یہاں یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آبادی میں طوفانی اضافہ کی وجہ سے ہی قحط سالی ہورہی ہے۔ اناج کافی نہیں ہوگا تو ظاہر ہے روٹی کی قلت ہوگی جس کے باعث انہیں ترک وطن کرنا ضروری ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے وہ جان پر کھیل کر بحیرہ روم کے راستے یوروپی یونین کے کسی بھی جلک میں پہنچ جاتے ہیں لیکن وہاں اپنا کیس درج نہیں کرواتے۔ حالانکہ قانون کے مطابق انہیں پناہ کی درخواست اسی ملک میں دینی چاہیئے جہاں وہ پہلی بار اُترے ہیں۔ غرض وہ وہاں نہیں ٹھہرتے بلکہ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے سیدھے جرمنی پہنچ جاتے ہیں جس کو پورے یوپ کی اقتصادی شہ رگ مانا جاتا ہے جس کی وجہ سے جرمنی کو یوروپ میں ایک منفرد مقام ملا ہوا ہے۔ یہی وہ بات ہے جو پناہ گزینوں کیلئے کشش کا باعث ہے۔ یہ سچائی بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ان پریشان حال انسانوں کیلئے جرمن قوم کے دلوں میں انتہائی نرم گوشہ ہے۔ وہ ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اور کسی طرح انہیں قیام پذیر ہونے کا موقع دیتے ہیں‘ پناہ گزینوں کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہے۔
اب ہم جرمنی کے ماضی کی طرف نظر ڈالتے ہیں۔ مکمل چھ سال تک جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ جو جرمنی سے شروع ہوئی تھی جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تھی۔ ان ناگزیر حالات میں جرمنی اپنے پارہ پارہ وجود کو لے کر یوں کھڑا تھا جیسے صحرا میں ایک چھوٹا سا پودا ، جو ہوا کے ایک جھونکہ سے کسی وقت بھی اُکھڑ سکتا ہے۔ یعنی بنیادی طور پر جرمنی مسمار ہوچکا تھا لیکن جرمنی قوم کے حوصلے بلند تھے، وہ شکست کھاکر بھی دوبارہ کھڑا ہونے کے لئے کوشاں تھا۔ بلا تکان وہ آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا رہا۔ اگرچہ کہ شکست کے بعد محض اس کی طاقت توڑنے کیلئے اس کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ مشرقی جرمنی پر سوویت یونین کا تسلط قائم ہوگیا اور وہاں کمیونسٹ نظام رائج کردیا گیا۔ مغربی جرمنی، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے زیر اثر رہا اور وہاں جمہوریت قائم کردی گئی۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں جرمنی دو متضاد نظام کے تحت چلتے رہے تو کیسے ؟۔ کتنا مشکل ہوتا ہے کمیونزم میں سانس لیں، ایسے میں برسوں جرمن قوم نے اپنے صبر اور حوصلہ کا امتحان دیا پھر ایک وقت آیا جب 45 برس بعد دونوں جرمنی متحد ہوتے ہیں، یہ ایک حیرت انگیز اتحاد تھا۔ جس پر دنیا اس لئے بھی ششدر ہوگئی کہ دو متضاد نظاموں میں چلنے والے اکٹھے کیسے رہ پائیں گے۔ لیکن آج 33 برس کا طویل عرصہ گذر چکا ہے وہ اس میں ایسے گھل مل گئے ہیں جیسے کبھی الگ ہوئے ہی نہیں تھے۔ یہ ان کی آپسی محبت اور ہم وطنی کا جذبہ تھا کہ 45 سال کا طویل عرصہ بھی ان کے درمیان دوریاں اور اجنبیت پیدا نہ کرسکا۔ خاص طور پر مغربی جرمنی کے باشندوں کے حوصلے بلند تھے کہ انہوں نے فراخدلی سے اپنی برادری کو قبول کیا۔ اس کے علاوہ برباد شدہ جرمنی کو اتنی اونچائی پر لانے کا سہرا اسوقت کے سیاستدانوں اور دانشوروں کے سر جاتا ہے جو اپنی محنت اور لگن سے ملک کو اس مقام پر پہنچائے ہیں اور ان کی ایمانداری کا انہیں ثمر ملا ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفادات کو یکسر نظرانداز کرکے ملک و قوم کی خوشحالی اور ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے سارے کام انجام دیئے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح شکست خوردہ جرمنی کو دنیا کے نقشہ پر نمایاں حیثیت حاصل ہو، منصوبہ کامیاب ہوا، اور آج جرمنی یورپ کی سب سے بڑی طاقت مانی جاتی ہے۔ یہ کارنامہ لائق تقلید ہے۔