مودی حکومت ‘ دوسری معیاد کا ایک سال

   

مرکز کی نریندر مودی زیر قیادت این ڈی اے حکومت کی دوسری معیاد کا آج پہلا سال مکمل ہو رہا ہے ۔ اس ایک سال میں حکومت عملا ہر محاذ پر ناکام ہی رہی ہے ۔ حالانکہ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں اور حواریوں کی جانب سے حکومت کے ایسے کارنامے گنائے جا رہے ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ۔ صرف نظریاتی ایجنڈہ کی تکمیل اور فرقہ وارانہ منافرت میں اضافہ کے سواء حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا ہے اور عوام کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کی کوششیں اس ایک سال میں مزید تیز ہوگئی ہیں۔ کئی گوشوں کے ساتھ اب گودی میڈیا اور زر خرید اینکرس بھی کھل کر ہندو مسلم ایجنڈہ پر کام کرنے لگے ہیںاور اس کو وہ اپنے لئے تمغہ سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے ایک سال کے ابتدائی ایام میں جس تیزی سے فرقہ وارانہ منافرت کے ایجنڈہ کی تکمیل کی گئی وہ سارا ملک جانتا ہے ۔ دوسری معیاد میں حکومت سنبھالنے کے بعد امیت شاہ کو وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا اور پھر بی جے پی کے نفرت انگیز اور متنازعہ ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز کردیا گیا ۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا ۔ تین طلاق مسئلہ پر قانون سازی کردی گئی ۔ شہریت ترمیمی قانون کو منظور کردیا گیا اور اس کے ساتھ ہی این آر سی پر عمل آوری کے منصوبے بھی بنالئے گئے ۔ این آر سی کا مسئلہ حکومت کیلئے گلے کی ہڈی بھی بن گیا تھا کیونکہ عوامی احتجاج اور اندیشوں کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت نے اس مسئلہ پر کبھی غور ہی نہیں کیا ہے اور نہ این آر سی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس کے برخلاف امیت شاہ نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہر جگہ کہا تھا کہ این آر سی نافذ ہوگا اور سارے ملک میںہوگا ۔ یہ حکومت کے دوہرے معیارات تھے جن کو اجاگر کرنے کی بجائے گودی میڈیا اور زر خرید اینکرس نے اس کے ہندو ۔ مسلم پہلووں کو اجاگر کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش ہی کی تھی ۔ پارلیمنٹ میں اہم ترین فیصلے ہوئے اور جمہوریت کا افسوسناک پہلو یہ رہا کہ انتہائی اہمیت کے حامل فیصلے بھی کسی مباحث اور غور و خوض کے بغیر چند گھنٹے میں منظور کروالئے گئے ۔
اپنی دوسری معیاد میں نریندر مودی حکومت نے اپنی عددی طاقت کا کھل کر استعمال کیا اور اس کے بعض وزراء نے بھی اس تعلق سے کھل کر اظہار خیال کیا ہے ۔ اپنی عددی طاقت کو ملک کے مفاد میں اور جمہوریت کی بقاء کیلئے استعمال کرنے کی بجائے جمہوریت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی ۔ حکومت پر تنقید کرنے والوں کی رائے کا احترام کرنے کی بجائے انہیں ملک دشمن قرار دینے کی مہم شروع کی گئی ۔ اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے ہی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ ملک کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ۔ حکومت کے اقدامات نے ملک کے غریبوں کو انتہائی غربت کا شکار کردیا اور حواری کارپوریٹ حلقوں کو نہ صرف کنٹراکٹس دلوائے گئے بلکہ ان کے ہزاروں کروڑ روپئے کے قرضہ جات کو معاف کردیا گیا ۔ عوام پر ہر طریقہ سے بوجھ عائد کیا جاتا رہا ۔ مہنگائی اپنے عروج پر پہونچ گئی ۔ ذخیرہ اندوزی اور کالا بازاری پر کوئی قابو نہیں کیا گیا ۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں انتہائی کم ہونے کے باوجود حکومت نے عوام کو کسی طرح کی راحت پہونچانے سے گریز کیا ۔ تیل قیمتوں میں کمی کے فائدے کو حکومت نے اکسائز ڈیوٹی میں مسلسل اور بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے اپنے خزانے بھرنے کیلئے منتقل کردیا اور عوام کی جیبوں پر بالواسطہ طور پر ڈاکہ ڈالا ہے ۔ کئی سرکاری اداروں میں خانگی سرمایہ کاری کے دروازے کھولدئے گئے اور بی ایس این ایل جیسے ادارہ میں ہزاروں ملازمین کو رضاکارانہ سبکدوش کرتے ہوئے اس ادارہ کو عملا ختم کردیا گیا ہے ۔
اب جبکہ ساری دنیا میں کورونا وائرس کا قہر ہے اور ہندوستان بھی اس سے متاثر ہوا ہے ایسے میں ملک کی معیشت کی تباہی کی رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی ہے ۔ حکومت 20 لاکھ کروڑ کے پیاکیج کا اعلان تو کرچکی ہے لیکن اس کی تفصیل کسی کے سامنے پیش نہیں کی جا رہی ہے ۔جہاں ابتدائی ایام میں اس نے اپنے ایجنڈہ کو پورا کرنے میںکوئی کسر باقی نہیں رکھی وہیں اب اس کیلئے کورونا کی صورت میں ایک چیلنج ابھرا تھا ۔ حکومت ملک اور ملک کے عوام کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے معاملے میں پوری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔