مودی حکومت میں کرپشن عروج پر

   

راج دیپ سردیسائی
جہاں کرپشن زیادہ ہوتا ہے، وہاں مہنگائی اور دیگر پریشانیوں کا سارا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے۔ اب ہم خود ہمارے ملک کی بات کرتے ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی حکومت کے سات برسوں میں کرپشن میں کمی آئی، اضافہ ہوا یا پھر یہ حالت جوں کی توں برقرار ہے۔ ویسے بھی ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے 2014ء میں اقتدار میں فائز ہونے کے بعد جشن آزادی سے پہلی مرتبہ خطاب میں پرزور انداز میں کہا تھا ’’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘‘۔ انہوں نے بڑے فخر سے یہ پیغام ساری قوم کو دیا تھا۔ اسی طرح رشوت ملک میں کم ہوئی ہے یا نہیں، گوا کے سرکاری ملازمین کے حوالے سے دیکھتے ہیں جہاں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے وزیر پر ہر محکمہ جاتی تعیناتی کیلئے 25 تا 30 لاکھ روپئے بطور رشوت حاصل کرنے کا الزام عائد کیا ہے یا پھر رشوت میں کمی آئی ہے یا اضافہ ہوا ہے، اس معاملہ کا جائزہ مہاراشٹرا کے پولیس عہدیداروں کے حوالے سے لیتے ہیں جہاں ایک سابق اعلیٰ پولیس عہدیدار نے ریاست کے وزیر داخلہ (جو فی الوقت وزیر داخلہ نہیں رہے اور گرفتار کئے جاچکے ہیں) پر یہ الزام عائد کیا کہ انہوں نے پولیس فورس سے ماہانہ 100 کروڑ روپئے وصولی طلب کی تھی۔ 2014ء کے عام انتخابات میں مودی نے بار بار کرپشن کے خلاف بولتے ہوئے عوام کے ذہنوں میں اپنی یہ شبیہ بنائی تھی کہ وہ کرپشن کے سخت خلاف ہیں اور اب ملک میں کرپشن کی وباء کو ختم کرکے رہیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
2014ء کے عام انتخابات میں بی جے پی والوں نے ایک نعرہ بلند کیا تھا جو اس طرح تھا ’’بہت ہوا بھرشٹاچار، اب کی بار مودی سرکار‘‘۔ اس نعرہ کے ذریعہ دراصل کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے۔II حکومت کو نشانہ بنایا گیا جو کرپشن کے یکے بعد دیگرے الزامات کا سامنا کررہی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرپشن کے خلاف نعرے تیار کرنا یا پھر نعروں کو بلند کرنا بڑا آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ آپ کرپشن کا خاتمہ کریں۔ ایسے میں عوام کو نعروں پر نہیں بلکہ عملی اقدامات پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ جو قائدین نعرے بلند کررہے ہیں، وہ کتنے سنجیدہ ہیں۔ واضح رہے کہ حالیہ برسوں کے دوران ہم سارے ہندوستانیوں نے دیکھا کہ عالمی سطح پر مختلف شعبوں سے متعلق جو انڈیکس یا اشاریئے منظر عام پر آرہے ہیں، ان میں ہندوستان کا درجہ گھٹتا ہی جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل‘‘ جیسی تنظیم نے سالانہ کرپشن انڈیکس جاری کیا جس میں ہم 6 درجہ مزید گر گئے اس طرح عالمی سطح پر ہمارا رینک یا درجہ 86 ہوگیا ہے۔ 2013ء میں ہم اس انڈیکس میں 94 ویں مقام پر تھے جبکہ عالمی سطح پر رشوت خوری کے جوکھم سے متعلق انڈیکس میں ہندوستان جو 2014ء میں 185 ویں مقام پر تھا، 2020ء میں 77 ویں مقام پر آگیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ مختلف سرکاری کارروائی یا عمل میں ڈیجیٹائزیشن اور ٹیکنالوجی کے استعمال نے اختیارات کے بیجا استعمال کے امکانات کو کم کیا ہے۔ چاہے وہ ٹیکس کی وصولی ہو یا عوامی خدمات کا معاملہ۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ یو پی اے کے دور کی بہ نسبت بی جے پی حکومت میں کوئی ایسا بڑا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا جس نے حکومت میں ہلچل پیدا کی ہو۔ اس سلسلے میں یہ کہا گیا کہ حکومت کے سربراہ یعنی وزیراعظم نے عظیم تر وزارتی جانچ کو یقینی بنایا۔ اس کے برعکس یو پی اے کے دور اقتدار میں مخلوط سیاست کی مجبوریاں تھیں اور کرپشن کے خلاف کارروائی کے معاملے میں سمجھوتے کرنا پڑتا تھا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کے واقعات کو منظر عام پر لانا دراصل اس طرح کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے والے اداروں یا کسی آزادانہ میڈیا کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو مختلف چیزوں کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کرتا ہے۔ مثلاً 2019-20ء انتخابات کا کلیدی سال رہا۔ اس دوران مختلف سیاسی جماعتوں نے 3,249 کروڑ روپئے پارٹی فنڈ کے طور پر حاصل کئے جس میں سے بی جے پی کو 2,606 کروڑ روپئے فراہم کئے گئے جو جملہ رقم کا 75% حصہ ہے۔ اس کا مطلب وسائل تک رسائی کے معاملے میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ رقومات کے جو وسائل ہوتے ہیں، ان تک حکمراں جماعت کے قائدین کو ہی رسائی حاصل ہے جس سے کئی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور ہر کوئی یہ سوچنے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ کہیں نہ کہیں فنڈس دینے اور لینے والوں میں قریبی گٹھ جوڑ ہے۔ سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈس کیس میں اس بات کو بے نقاب کردیا کہ کس طرح چند اداروں نے اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا اور اپنے دستوری فرائض کی ادائیگی میں ناکام بھی رہے۔
گرام پنچایت انتخابات سے لے کر پارلیمانی انتخابات تمام کے تمام میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ این ڈی اے کا انسداد کرپشن عہد کہاں گیا؟ وہ صرف کیا انتخابی حربہ تھا؟ یہ بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا بی جے پی زیراقتدار ریاستوں جیسے کرناٹک اور گوا میں اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں یا آیا مرکزی ایجنسیاں اپوزیشن کی زیرقیادت ریاستوں میں استعمال کی جاتی ہیں؟ تب انہوں نے وزیراعظم سے شکایت کی۔ جب میں نے پوچھا کہ شکایت کا کیا ہوا تو ستیہ پال ملک نے کہا کہ مجھے گورنر گوا کے عہدہ سے ہٹاکر شیلانگ بھیج دیا گیا۔