مودی حکومت کو چاہئے کے وہ کسی بھی حال میں کشمیر میں سیاست کو بحال کرے‘ برکھا دت

,

   

کشمیر کو متحد‘ تحدیدات کو ختم کرنا اور سیاسی قائدین کی رہائی ناگزیر ہے۔ ورنہ علیحدگی پسند مضبوط ہوجائیں گے

حیدرآباد۔ جموں او رکشمیر کے خصوصی درجہ کی برخواستگی اور وادی میں تحدیدات کے نفاذ کو ایک ماہ کا وقت گذار گیا ہے‘

استفسار کا یہ وقت ہے کہ مستقبل میں حکومت کابلیوپرنٹ کیاہے؟ارٹیکل370کی برخواستگی کا فیصلے لینے کی ابتدا ء میں مذکورہ انتظامیہ اور سکیورٹی اداروں نے زندگیوں کو ضائع ہونے سے بچانے پر توجہہ مرکوز کی۔

مرکزی دھاری کے سیاسی قائدین کی گرفتاریوں کی ابتداء میں اس طر ح وضاحت کی گئی ہے کہ یہ مذکورہ گرفتاریاں قانون او رنظم ونسق کی برقراری کے مقصد کے ساتھ کی گئی ہیں۔

تیس دن بعد بھی اس حقیقت کو روکا نہیں جاسکا۔یہاں پر وادی میں کشمیری مرکزی دھارے کو کچھ حد تک ہمدردی ہے۔

لیکن نریندر مودی حکومت کے لئے یہاں راہداری ہے۔
جس قدر مرکزی دھاری کو اپ نظر انداز کریں گے‘ جس قدر آپ ان کے ساتھ بدسلوکی کریں گے‘ جس قدر آپ انہیں کونے میں دھکیلیں گے‘

علیحدگی پسندوں اورشدت پسندوں کو اپ اتنا ہی مضبوط کریں گے۔پچھلے کچھ ہفتوں میں سری نگر کو میرے متعدد دورے‘ جس سے ایک بات میرے سمجھ میں یہ ائی۔

عمر عبداللہ او رمحبوبہ مفتی جیسے سیاسی قائدین کی حراست کے متعلق سڑکوں پر تبصرے ہورہے ہیں۔

اس کے علاوہ ان کی پارٹی کے سیاسی قائدین جن میں کئی لوگوں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی حوصلہ دیکھانے پر دہشت گردوں نے نشانہ بنایاتھا‘ یہا ں کچھ مختصر یا اس بدسلوکی پر کوئی ہمدردی نہیں دیکھائی دے رہی ہے جن کے مکان سابق میں کئی دنوں تک چشم شاہی یاپھر ہوٹل سنٹرو میں رہے ہیں۔

مذکورہ بھارتیہ جنتا پارٹی یا تو اس کو ”آہ میں نے ایسا کہاتھا“ عمل کے طور پر دیکھیں‘ یاپھر محسوس کریں یہ حقار ت کس قدر خطرناک ثابت ہوگی۔

ایک شخص جس سے میری ملاقات حکومت کے فون ہلپ لائن (جہاں پر اس نے سعودی عرب میں مقیم اپنے والد تک رسائی کے لئے گھنٹوں تک انتظار کیا) نے اپنے بہتے ہوئے انسوؤں کے درمیان تحویل کے متعلق مجھ سے کہاکہ”مرکزی دھارے پر ایک تمانچہ ہے۔ ان کو ان کی اوقات کا پتہ چلا گیاہے“۔

شہر کے دیگر مضافاتی علاقوں میں جہا ں پر کئی سالوں سے ہر شام کا اختتام نیم فوجی دستوں اور احتجاجیوں کے درمیان پتھر بازی کے ذریعہ ہوتا ہے کھلے عام مرکزی دھارے کو توہین کی جارہی ہے۔

ان میں سے زیادہ تر نے کبھی ووٹ دیا ہی نہیں ہے۔ آج وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کاموقف درست ثابت ہوا ہے کیونکہ سجاد لون جیسے لوگ بھی جیل میں بند ہیں۔

سیدصلاح الدین(حزب المجاہدین کا دہشت گرد جو فی الحال پاکستان میں ہے) کے بعد‘ لون واحد پہلے منفرد کشمیری علیحدگی پسند تھے جس نے 2002کے الیکشن میں قسمت آزمائی تھی۔

علیحدگی پسندوں کے حامی اپنے والد کے قتل کا ذمہ دار انہوں پاکستان کے گہری سازش او رائی ایس ائی کو ٹہرایاتھا۔

آج بھی ان کا ایک بھائی علیحدگی پسند ہے۔ ان کی پارٹی نے بی جے پی کی حمایت کی تھی او رلون نے وزیراعظم کو ”بڑے بھائی“ سے تشبیہہ دی ہے۔

آج کے وقت میں حالات نہایت خراب ہیں حالانکہ کرفیو نہیں ہے مگر لوگ شہری مرکز جیسے سری نگر میں اپنی دوکانات کھولنے اور سڑکوں پر آنے کے لئے تیارنہیں ہیں۔

میڈیا میں نظر آنے والی خالی گلیاں او رسنسان سڑکیں اس کی وضاحت کرتی ہیں۔ اگلے قدم کے بغیر اور تحدیدات کو ختم کرنا اور سیاست کومعمول پر لانا‘ علیحدگی پسندوں کی یہ مضبوطی ہوگی۔

یہ اقدام ستم ظریفی ہوگا جس میں کشمیریوں کو باقی ہندوستان کے اندر ضم کرنے کیلئے اٹھایاگیاہے۔ برکھا دت ایک ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں اور مصنف بھی جن کی ذاتی رائے او رنظریات یہاں پرشائع کئے گئے ہیں