مودی کو ٹھوس اصلاحات پر توجہ ناگزیر

   

راج دیپ سردیسائی
وزیراعظم نریندر مودی مقبول فقرے اور مخفف بنانے کے معاملے میں واقعی واجبی ساکھ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اُن کی معاشی پالیسیوں کو اکثر ہلکے پھلکے انداز میں Modinomics قرار دیا جاتا ہے۔ اور اس کے باوجود اب جبکہ اُن کے اقتدار کا چھٹا سال ہے اور اُن کی حکومت نے ایک اور بجٹ پیش کیا ہے، لیکن سوال پھر بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ ’مودی نامکس‘ فی الواقعی کیا ہے؟
یاد کیجئے جب وزیراعظم کو پہلی مرتبہ حلف دلایا گیا تھا، اُن کے چاہنے والوں نے فوری مرکزی حکومت کے اُبھراؤ کی مماثلت تھیاچر ؍ ریگن جیسے انقلاب کی شروعات سے کی تھی جس میں مودی کو فری مارکیٹ کی معاشیات کے 1980ء کے دہے بڑے لیڈروں کے مماثل ممکنہ ہندوستانی لیڈر کے طور پر پیش کیا گیا۔ لیکن جس طرح وقت گزرتا گیا، مودی طرز کی معاشی پالیسی اکثروبیشتر بنیادی طور پر بڑی حد تک نہرو طرز کی قدیم سوشلسٹ ظاہر ہو ، نہ کہ روایتی دائیں بازو والی جس کا ماہرین معاشیات نے قیاس کیا تھا۔

جب وہ اقتدار پر آئے، مودی نے تمام تر درست نعرے لگائے۔ ’’زیادہ سے زیادہ حکمرانی، اقل ترین حکومت‘‘، ’’میک اِن انڈیا؍ اسٹانڈ اپ انڈیا؍ اسٹارٹ اپ انڈیا‘‘ کا ہر طرف چرچا ہوا جس سے توقع پیدا ہوئی کہ انڈین انٹرپرینرشپ میں نئی توانائی آنے والی ہے۔ مگر حقیقت میں حکومت کی طرف سے نمایاں طور پر کوئی پیش رفت درج نہیں کی گئی۔ مودی کی ترقی کے فارمولے نے سرکاری مصارف پر مبنی سرمایہ کاری پر انحصار کیا جب کہ پی ایس یو کی نج کاری کی نیم دلانہ کوششیں ہوئیں۔
اپنی پہلی میعاد میں مودی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا جب ان پر حصول اراضی قوانین میں ترامیم کی ناکامی کے دوران اُن کے سیاسی حریفوں کی جانب سے سوٹ بوٹ کی سرکار ہونے پر تنقیدیں ہونے لگیں۔ اواخر 2015ء سے مودی حکومت اپنی پالیسی میں دانستہ تبدیلی لاتے ہوئے بڑے پیمانے پر بہبودی پروگراموں پر توجہ مرکوز کرنے لگی جو قیادت کو موافق غریب امیج عطا کرے گی۔ نومبر 2016ء کا نوٹ بندی کا فیصلہ اس نئے امیج کا نتیجہ رہا جہاں وزیراعظم نے یہ پیام دیا کہ وہ امیروں کو سبق سکھاتے ہوئے ملک کو ’’پاک‘ کرنے کی اخلاقی مہم جوئی میں مصروف ہیں۔ سیاسی طور پر اس نے زبردست اثر دکھایا جیسا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اہم ریاستوں جیسے اترپردیش میں کلیدی انتخابات جیتے۔ لیکن کیا اس نے معاشی اصطلاحوں میں کام کیا؟ سرمایہ کاری اور ترقی میں سست روی آئی، زرعی آمدنی میں گراوٹ ہوئی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مودی کی سیاسی فتح نے معاشی ردھم کے نقصان کے بیج بھی بوئے ہیں۔

شاید 2014-15ء میں مودی پہلی میعاد کے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے فوری سیاسی مستقبل کے تعلق سے غیریقینی کیفیت سے دوچار تھے۔ وہ ایل پی جی گیس سلنڈروں، صاف صفائی اور کم آمدنی والے گروپوں کیلئے مکانات جیسی بنیادی ضروریات کو استفادہ کنندگان کی رسائی تک بہتر انداز میں پہنچاتے ہوئے مالی وسائل کے فوائد پر توجہ مرکوز کرسکتے تھے۔ لیکن قابل قدر اسکیمات جیسے اُجوالا، سوچھ بھارت اور پردھان منتری آواس یوجنا فوری بنیادی اصلاحی حل کیلئے متبادل نہیں بن سکتے تھے، بھلے ہی وہ ووٹ دلائیں۔ مثال کے طور پر اصلاحی اقدامات جیسے متوسط طبقات کیلئے پکوان گیس کی سبسیڈی کو کامیابی سے نشانہ بنانا اور گڈس اینڈ سرویسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے ذریعے بڑی بالواسطہ ٹیکس اصلاح ستائش کے مستحق ہیں، لیکن کلیدی شعبوں جیسے اراضی، مزدور اور بینکنگ میں سیاسی طور پر زیادہ چیلنج بھرے اصلاحات کو مستقبل کیلئے موخر کردیا گیا۔

اب وقت آچکا ہے۔ اپنی پہلی میعاد میں مودی واجبی معاشیات پر کشیدہ سیاست کو فوقیت دینے کے باوجود بچ گئے۔ عالمی معاشی صورتحال اور تیل کی ہلکی قیمتوں نے مودی کا زبردست ساتھ دیا اور پھر بھی بعض اوقات انھوں نے زیادہ ضرورت والی اصلاح کے مقابل نوٹ بندی جیسا جوکھم بھرا اقدام کیا۔ مودی 2.0 میں اب دیسی سیاسی ہوا کا رخ پوری طرح اُن کے حق میں ہے۔ 1984ء میں راجیو گاندھی کے بعد سے کسی حکومت کو پارلیمنٹ کے اندرون اور بیرون دونوں جگہ ایسی ناقابل شکست اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اندرون ایک سال، راجیہ سبھا تک طویل مدت سے معرض التوا معاشی قانون سازی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ وزیراعظم کو ’’ون نیشن، ون پول‘‘ جیسے آزمائشی سیاسی چالوں میں دھیان لگانے کی بجائے سرمایہ کاری کو تقویت دینے والے کاموں پر توجہ دینا چاہئے۔

یہ کام آسان نہیں رہے گا۔ سرمایہ کار ہنوز مودی حکومت کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں، انھیں یقین نہیں کہ آیا وزیراعظم پالیسی سازی کی راہ پر استقلال کے ساتھ قائم رہیں گے یا اپنی طرز کی عوام کو جوش دلانے والی قوم پرستی پر عمل کریں گے جہاں فوری طور پر سیاسی نتائج اکثر اوقات فیصلہ سازی میں عارضی نوعیت کی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ دیگر جواب طلب اور پریشان کن سوالات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر آیا ریزرو بینک آف انڈیا کو خودمختار رہنے دیا جائے گا یا اسے محض حکومتی ہدایت کی تعمیل کرنے والے ادارہ کے طور پر دیکھا جائے گا؟

مودی نہ تھیاچر ہیں اور نہ ہی ریگن طرز کے مارکیٹ پر مبنی پالیسی ساز لیڈر… یہ بات اب طے ہوچکی ہے۔ لیکن کیا وہ کم از کم نرسمہا راؤ طرز کے معاشی بصیرت افروز لیڈر بن سکتے ہیں؟ نرسمہا راؤ اقلیتی حکومت کے لیڈر کی حیثیت سے ہوسکتا ہے اُس وقت ہندوستانی معیشت کو درپیش عدیم النظیر مالی بحران کے سبب اصلاح پر مجبور ہوئے؛ لیکن مودی کو اعلیٰ ترین لیڈر کے ناطے ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے سوائے اس کے کہ تاریخ میں اپنا مقام مضبوط بنانے کی پُرجوش خواہش ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اب ’’نیو‘‘ انڈیا کو جاننے کا وقت ہے کہ حقیقت میں ’مودی نامکس‘ کا مطلب کیا ہے۔

اختتامی تبصرہ
کس لیڈر نے گزشتہ دہے میں ہندوستانی سیاست میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے؟ نہ، مودی نہیں، امیت شاہ بھی نہیں، بلکہ بجا طور پر نرملا سیتا رمن، جو 10 سال قبل نئی نئی شامل کردہ ترجمان بی جے پی سے آگے بڑھتے ہوئے اب وزیر فینانس ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا ملک کی معاشی بحالی مسز نرملا کی تیزسیاسی ترقی کی برابری کرے گی، یا نارتھ بلاک تمام تر اختیارات والے پرائم منسٹرس آفس (پی ایم او) کا محض ملحقہ ادارہ بن کر رہ جائے گا؟
rajdeepsardesai52@gmail.com