مودی کے گجرات میں دلتوں پر مظالم

   

ڈس نہ لے یہ در و دیوار کا سناٹا مجھے
دل سے اُٹھتے ہوئے شعلوں سے پریشان ہوں میں
مودی کے گجرات میں دلتوں پر مظالم
جس وقت سے گجرات میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی تھی اور جب نریندر مودی ریاست کے چیف منسٹر بنے تھے اس وقت سے سارے ملک میں گجرات ماڈل کی دہائی دی جاتی ہے ۔ مختلف شعبہ جات کی ترقی اور مہارت میں ملک کی کئی ریاستوں میں اب تک گجرات کو کافی پیچھے چھوڑ دیا ہے اس کے باوجود آج بھی بی جے پی قائدین اور تلوے چاٹنے والے اینکرس گجرات ماڈل کی بات کرتے ہیں۔ انہیں وزیر اعظم مودی کو خوش کرنا جو ہوتا ہے ۔ بی جے پی دلتوں اور پسماندہ طبقات کے ساتھ انصاف کرنے کی بات بھی کرتی ہے ۔ ان کو سماج میں ایک معزز اور معتبر مقام دلانے کے دعوے بھی کئے جاتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ مودی کے گجرات ہی میں دلتوں اور پسماندہ طبقات پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے ۔ وہاں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے ۔ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لڑکیاں اور خواتین کچھ برسوں میں ریاست سے لاپتہ ہوگئی ہیں۔ ان کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے ۔ خاص طور پر دلتوں پر مظالم کے واقعات میں بی جے پی ریاستیں سب سے آگے دکھائی دیتی ہیں۔ دلتوں کے خلاف غیر انسانی حرکتیں کی جاتی ہیںاور انہیں سماج میں ذلیل و رسواء کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی ۔ ہمارے جو نام نہاد قومی میڈیا ہے وہ بھی اس تعلق سے آنکھیں موند لینے ہی میں عافیت سمجھتا ہے ۔ وہ اس طرح کے معاملات کو موضوع بحث نہیں بناتا ۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں اگر اس طرح کے واقعات پیش آجائیں تو ان پر واویلا مچایا جاتا ہے ۔ گجرات میں اب ایک تازہ ترین واقعہ پیش آیا ہے جس میںایک دلت شخص کی ہتک کی گئی ہے اور اس کے خلاف غیرانسانی حرکتیں ہوئی ہیں۔ یہاں ایک دلت نو جوان کو اپنی سابقہ کمپنی مالک سے تنخواہ پوچھنے پر ذلیل و رسواء کیا گیا ۔ اس کے منہ میں جوتا ٹھونس کر معذرت خواہی کرنے کو کہا گیا ہے ۔ یہ واقعات ایسا نہںے ہے کہ صرف ایک ریاست تک یا ایک شہر تک محدود ہیں۔ ایسی اوچھی سوچ و ذہنیت میں اضافہ ہونے لگا ہے ۔ اس طرح کے واقعات دوسری ریاستوں اور شہروں میں بھی پیش آنے لگے ہیں۔
دلتوں اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے سے کمتر اور کمزور سمجھنے کی جو روایت چل رہی ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے ۔ یہ کوئی یکا دوکا پیش آنے والے واقعات نہیں ہیں بلکہ یہ ایک سوچ بن گئی ہے ۔ اس سوچ کو ختم رکنے کی ضرورت ہے لیکن اس سوچ کو غلبہ حاصل ہوتا جا رہا ہے ۔ اس طرح کی سماجی لعنتوں کے خلاف سماج کے تمام طبقات اور گوشوں کو آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ ذات پات کی بنیاد پر کوئی چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا ۔ کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ دوسرے انسان کے ساتھ ہتک اور توہین آمیز سلوک کیا جائے ۔ اسے سماج میں ذلیل و رسواء کیا جائے ۔ اس کے حقوق سلب کئے جائیں۔ ہر انسان مساوی حقوق رکھتا ہے ۔ نہ صرف انسانیت میں سبھی کو مساوی موقف دیا گیا ہے بلکہ ہمارے ملک کے دستور اور قانون میں بھی ہر شہری کو مساویانہ حقوق فراہم کئے گئے ہیں۔ ہندوستان نے ذات پات کے نظام کے خلاف کئی دہوں تک جدوجہد کی ہے ۔ اس لعنت پر کافی مشکل سے قابو کیا گیا تھا ۔ یہ لعنت حالانکہ ختم نہیں ہوئی تھی لیکن یہ کم ضرور ہوگئی تھی ۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس دور میں اس طرح کی سوچ دوبارہ پنپنے لگی ہے ۔ دولت اور عہدہ کے نشہ میں انسانیت کو شرمسار کیا جا رہا ہے ۔ دوسروں کو انسان تک نہیں سمجھا جا رہا ہے اور یہ انتہائی مذموم اور افسوسناک صورتحال ہے ۔ اس کے خلاف سماج میں باضابطہ مہم چلائی جانی چاہئے ۔
آج جب نوجوان طبقہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے ثمرات سے خود بھی فائدہ اٹھارہا ہے اور سماج میں بھی مثبت اور اچھی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ایسے میں اگر اس طرح کی لعنتیں دوبارہ سرابھارنے لگتی ہیں تو یہ ہمارے سماج اور معاشرہ کیلئے اچھی علامت نہیں ہے ۔ ہم کو آگے کی طرف بڑھنا ہے پیچھے کی طرف نہیں جانا چاہئے ۔ حکومتوں کو جہاں اپنے حصہ کے اقدامات کرنے چاہئیں وہیں دیگر عوامی حلقوں میں بھی اس تعلق سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کا رجحان پیدا کیا جانا چاہئے ۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ سماج میں کسی کو کسی پر بالادستی یا برتری حاصل نہیں ہے ۔ سماجی امتیاز کی روایت کو بہرصورت روکا جانا چاہئے ۔