مولائے کائنات حضرت علی ؓکی شہادت

   

شہادت ۲۱؍ رمضان المبارک ۴۰ہجری

شیخ عبداللہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا۔ بعد میں اس میں اختلافات پیدا ہوگئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔تین خارجی ابن ملجم، برک بن عبداللہ اور عمرو بن بکر تیمی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے منصوبہ بنایا کہ حضرت علی، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں قتل کر دیا جائے۔ انہوں نے اپنی طرف سے اپنی جانوں کو اللہ تعالی کے ہاتھ فروخت کیا، خود کش حملے کا ارادہ کیا اور تلواریں زہر میں بجھا لیں۔ ابن ملجم کوفہ آ کر دیگر خوارج سے ملا جو خاموشی سے مسلمانوں کے اندر رہ رہے تھے۔ اس کی ملاقات ایک حسین عورت قطامہ سے ہوئی ، جس کے باپ اور بھائی جنگ نہروان میں مارے گئے تھے۔ ابن ملجم ا س کے حسن پر فریفتہ ہو گیا اور اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ قطامہ نے نکاح کی شرط یہ رکھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے۔ اس نے نہایت ہی سادہ منصوبہ بنایا اور صبح تاریکی میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب فجر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف آ رہے تھے تو اس نے آپ ؓپر حملہ کر کے آپؓ کو شدید زخمی کر دیا۔ اس کے بقیہ دو ساتھی جو حضرت معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہما کو شہید کرنے روانہ ہوئے تھے، ناکام رہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ یہاں ہم طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں:آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: ’’میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔(تیسرے بیٹے) محمد بن حنفیہ سے فرمایا: میں نے تمہارے بھائیوں کو جو نصیحت کی، تم نے بھی سن کر محفوظ کر لی؟ میں تمہیں بھی وہی نصیحت کرتا ہوں جو تمہارے بھائیوں کو کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ وصیت کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں (حسن و حسین) کی عزت و توقیر کرنا اور ان دونوں کے اس اہم حق کو ملحوظ رکھنا جو تمہارے ذمہ ہے۔ ان کی بات ماننا اور ان کے حکم کے بغیر کوئی کام نہ کرنا۔پھر خاص طور پر حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: میرے بیٹے! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔جب وفات کا وقت آیا تو پھر یہ (قرآنی آیات پر مشتمل) وصیت فرمائی:بسم اللہ الرحمن الرحیم! یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ وہ اس بات کی وصیت کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیں، خواہ یہ بات مشرکین کو ناگوار گزرے۔ یقیناً میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبردار لوگوں میں سے ہوں۔