مولانا محمد حبیب الرحمن حسامی کی ادبی و سماجی خدمات

   

تبسم آراء
سرزمین دکن حیدرآباد میں اور اکیسویں صدی کے پرآشوب ماحول میں اسلامی و دینی تعلیمات کی تکمیل کیلئے مدارس کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ عصر حاضر میں بھی کئی مدارس ادبی، مذہبی ، سماجی و اصلاحی خاموش خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان مدارس کثیرہ میں ایک مدرسہ جامعہ عربیہ ارشاد العلوم، سلیمان نگر ، حیدرآباد ہے۔جامعہ عربیہ ارشادالعلوم کی کارکردگی و خدمات جاننے سے پہلے میں بات کرنا چاہوں گی، بانی مدرسہ جناب محمد حبیب الرحمن حسامی صاحب کے متعلق جن کی زندگی لائق تقلید ہے۔
ان میں ستائش کی تمنا ہے نہ صلہ کی پرواہ
ان کے اپنے متعین کردہ خدمت دین کے شعبہ ہیں، جو بے لوث خادم دین بن کر کام کئے جارہے ہیں۔
ولادت و تعلیم :
مولانا حبیب الرحمن حسامی کی ولادت ماہ جولائی سن 1979ء کو کرناٹک ضلع بیدر تعلقہ چٹگوپہ میں ہوئی ان کی ابتدائی عصری علوم کی تعلیم الامین اردو اسکول چٹگوپہ میں ہوئی اور عربی تعلیم ناظرہ و حفظ قرآن مجید و ابتدائی عالمیت اول تا سوم عربی دارالعلوم حسامہ چٹگوپہ میں ہوئی۔ اس کے بعد حیدرآباد آکر جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد میں داخلہ لیا۔ قرأت اور امامت کا بھی امتحان جامعہ نظامیہ سے دیا۔جامعہ اسلامیہ دارالعلوم حیدرآباد سے 1999ء میں سند فضیلت حاصل کی۔ عالم کورس کی تعلیم کے دوران ہی ان کی خواہش تھی کہ عصری تعلیم بھی حاصل کریں چنانچہ ادارہ ادبیات اردو پنجہ گٹہ سے اردو عالم، اردو ماہر، اردو فاضل کا امتحان دیا اور لطیفیہ عربک ایوننگ کالج سے بھی تعلیم حاصل کی۔
ادبی خدمات :
تعلیم کے دور میں ہی مولانا کو تصنیف و تالیف کا بہت شوق تھا چنانچہ مولانا نے 1999ء میں سب سے پہلے شمائل ترمذی کی تلخیص کے طور پر نبی کریمؐ کے حلیہ مبارک پر ایک کتاب بنام ’’جمال حبیب ﷺ‘‘ شائع کی جس میں نبی کریمؐ کے حلیہ مبارکہ کو مستند انداز میں بیان کیا گیا۔ اس کے بعد مولانا نے دیگر کتابیں بہ نام، نیک بیوی کون؟ نیک شوہر کون؟قربانی کی حقیقت، معلمات و طالبات کے ایام خاص کے مسائل، سلام کرنے کا مسنون طریقہ، عورتوں کی شان، نماز ڈائری، تجہیز و تکفین کا آسان طریقہ اور مضامین ارشادی لکھے جو زیور طباعت سے آراستہ ہوئیں اور عوام و خواص میں مقبول ہوئیں، نیز ایک عرصہ تک روزنامہ ’’منصف‘‘ میں بھی آپ کے قلمی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔
اشاعت علوم کیلئے مولانا کا اقدام :
مولانا نے تعلیم کو عام کرنے اور امت مسلم کے نونہالوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے جامعہ عربیہ ارشاد العلوم کا قیام عمل میں لایا۔ قیام مدرسہ کے پیچھے وہ خواب کار فرما ہے جو 2000ء میں آپ نے رمضان کے آخری عشرہ میں دیکھا۔ یہ مدرسہ کا قیام اسی خواب کی عملی تصویر کی تکمیل ہے اور ایک دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ 1998ء میں مولانا کا اکثر اس محلہ (یعنی) سلیمان نگر چنتل میٹ میں متعلقین کے پاس آنا ہوتا تھا۔ وہ یہاں کی بے دینی لاعلمی بے راہ روی کو دیکھ کر بہت ملول ہوتے تھے۔ بہرحال بہت دشواریوں رکاوٹوں کے باوجود اللہ پر توکل کرتے ہوئے انہوں نے 2 جنوری 2001ء بروز جمعہ ایک شاندار جلسہ کیا۔ اس جلسہ سے مولانا غیاث احمد رشادی صدر صفا بیت المال جو دراصل اس مدرسہ کے قیام کے محرک ہیں، خطاب کیا اور جناب زاہد علی خاں اور دیگر مؤقر مہمانوں نے بھی خطاب کیا۔ ایڈیٹر سیاست نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ چھوٹی سی خستہ حال عمارت میں یہ مدرسہ شروع کیا جارہا ہے۔ انشاء اللہ آگے چل کر اس مدرسہ کی شاخیں ساری ریاست ہی میں نہیں بلکہ سارے ملک میں پھیلیں گی۔ آج الحمدللہ مدرسہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مدرسہ کے شعبہ جات میں حفظ، ناظرہ، عالم کورس، ڈپلوما ان دینیات وغیرہ شامل ہیں۔مدرسہ کے شعبہ جات میں اول تا ہفتم عصری تعلیم بھی داخل ہے جس میں گورنمنٹ کا نصاب رکھا گیا۔
نیز فنی تعلیم میں :
Computer Basic in Page Urdu Compute Cooking Class and Tailoring وغیرہ اس جیسے دیگر فنون شامل ہیں۔ اس مدرسہ سے اب تک تقریباً 50 طالبات اور کئی حفاظ فارغ التحصیل ہوئے۔ دینی، عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ میں انجمن ارشاد البیان کے نام سے ایک انجمن بھی قائم ہے۔ جس میں طلباء و طالبات کی تقریری و تحریری صلاحیتوں کو اُجاگر کیا جاتا ہے، نیز تحریری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ماہانہ دیواری پرچے ’’ندائے ارشاد‘‘، ’’شمع ارشاد‘‘، جہان اُردو‘‘، عالمی خبر نامہ وغیرہ شائع ہوتے ہیں۔ اس مدرسہ میں 25 معلمین اور معلمات برسرخدمت ہیں۔
سماجی خدمات :
درس و تدریس کے ساتھ ساتھ سماجی کاموں کا سلسلہ بھی مدرسہ کے آغاز سے جاری ہے۔ مثلاً قربانی کے گوشت کو تقسیم کرنا وقتاً فوقتاً چاول کو تقسیم کرنا اور غریب لوگوں کے لئے میڈیکل کیمپ قائم کرنا، Identy Card وغیرہ دستاویزات مفت میں بناکر دیناجو لوگ بینک تک جانے کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کیلئے بینک اکاؤٔٹ کھولنے کی راہیں ہموار کرنا۔
مولانا کے عزائم :
مدرسہ کی ترقی کیلئے مولانا کے ویسے تو بہت سارے عزائم ہیں۔ ان میں چند عزائم پیش کررہی ہو۔ (1) اُردو میڈیم اسکول کھولنا کیونکہ خانگی انگلش میڈیم اسکول حیدرآباد کی گلی گلی میں واقع ہیں، لیکن نہیں ہے تو خانگی اُردو میڈیم اسکول نہیں ہے جبکہ حیدرآباد کو اُردو کا مسکن کہا جاتا ہے مگر زبان اُردو کو پڑھنے اور پڑھانے کا رواج عملاً مفقود ہے۔(2) تلگو زبان میں ایک خالص اسلامی پرچہ نکالنے کا عزم ہے تاکہ برادران وطن تک دین کی صحیح دعوت پہونچے۔(3) ایک بڑی لائبریری کا قیام جس میں اُردو اخبارات کے علاوہ دینی و اصلاحی ماہنامے اور دینی کتب رکھ کر استفادہ کا موقع فراہم کرنا۔
پیغام :
آخر میں مولانا کا پیغام یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو علمی میدان میں آگے بڑھائیں تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہوسکے اور امت کو ان سے ویسا ہی فائدہ پہونچے جیسے مولانا ابوالکلام آزاد محمد علی جوہر اور علامہ اقبالؔ نے پہونچایا تھا اور ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم تعلیم سے آراستہ ہوں۔ نیز اللہ نے جنہیں مال دیا ہے، وہ لوگ آگے آئیں اور ایسے تعلیمی ادارے قائم کریں جن کا مقصد تعلیمی اداروں سے پیسے کمانا نہ ہو بلکہ تعلیم کو آگے بڑھانا ہو۔
اور مالداروں سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ مسلمانوں کے ان دستاویزات کے بنانے کی فکر کریں جو ان کی ہندوستانی شہریت کو ثابت کرتے ہیں کیونکہ وہ لاعلمی کی وجہ سے اس کی اہمیت و افادیت کو نہیں جانتے اور مساجد کے ذمہ داروں سے اپیل ہے کہ وہ مساجد کو مرکزی حیثیت دیں۔ مسجد کو عبادت ؍ دعوت اور خدمت کا مرکز بنائیں۔ کیونکہ یہی مسجد نبویؐ کا منشور تھا۔ نیز ہر شخص کو اپنی زندگی میں کچھ کام کرکے گذرنا چاہئے تاکہ آنے والی نسل کو اچھا نمونہ اور راہ عمل مل سکے۔