مڈل کلاس کی مدد ضروری

   

مڈل کلاس کی مدد ضروری
ملک بھر میں گذشتہ تقریبا دو ماہ سے جاری لاک ڈاون کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے کچھ امدادی پیاکیجس کا اعلان کیا گیا ہے ۔ جس وقت پہلی مرتبہ لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا تھا اس کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے غریب عوام کی مدد کیلئے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپئے کے امدادی پیاکیج کا اعلان کیا تھا ۔ اس وقت یہ امید جاگی تھی کہ حکومت کی جانب سے راحت فراہم کی جائیگی جس کے بعد غریب عوام کیلئے لاک ڈاون کی مدت کو کاٹنا اتنا زیادہ مشکل نہیں رہ جائیگا ۔ تاہم یہ ایک کڑوا سچ ہی کہا جاسکتا ہے کہ پہلی مرتبہ معلنہ امداد بھی ملک کے غریب ترین عوام تک نہیں پہونچ پائی تھی ۔ کچھ بینک کھاتوں میں یقینی طور پر 500 روپئے کی امدادی رقم ضرور پہونچائی گئی تھی لیکن ملک کے عوام کو اگر 500 روپئے میں گذارہ کرنے کو کہا جائے تو یہ انصاف کے خلاف اقدام کہا جاسکتا ہے ۔ اب جبکہ لاک ڈاون کے دو مہینے پورے ہونے والے ہیں ایسے میں عوام کی ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے تاجروں اور صنعتی گھرانوں کی کمر بھی ٹوٹتی جا رہی ہے ۔ کچھ معمولی سا کاروبار ضرور چل رہا ہے لیکن معیشت کو سرگرم کہا نہیں جا سکتا ۔ اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے شراب کی دوکانوں کو کھولنے کا اعلان کیا تھا جس سے سرکاری خزانہ میں ٹیکس کی رقومات جمع ہونی شروع ہوئی ہیں۔ حکومت کی عملا لا پرواہی کو دیکھتے ہوئے صاحب خیر افراد اور غیر سرکاری تنظیموں نے دل کھول کر غریب عوام کی مدد کی ہے ۔ ممکنہ حد تک انہیں بھوک سے بچانے کیلئے ہر گوشے سے عملی کاوش کی گئی ہے جو قابل ستائش ہے ۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے اب صنعتی گھرانوں کو اور کارپوریٹ سیکٹر کو دوبارہ فعال بنانے کیلئے 20 لاکھ کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے ۔ حالانکہ ابھی یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ یہ ساری رقم آئے گی کہاں سے اور خرچ کہاں کی جائے گی تاہم ایک حقیقت یہ ضرور ہے کہ اس میں بھی مڈل کلاس طبقہ نظر انداز ہی نظر آتا ہے ۔ مڈل کلاس طبقہ کو اب تک کوئی امداد فراہم نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ طبقہ ہے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے گریز کرتا ہے ۔
ملک کے غریب عوام کی مدد کیلئے کئی تنظیمیں اور سماجی ادارے سرگرم ہیں۔ حالانکہ ان تنظیموں اور اداروں کی مدد کو بھی کافی نہیں کہا جاسکتا اور اس سلسلہ میں بھی مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے اب صنعتی اور کارپوریٹ طبقہ کی مدد کیلئے بھی اقدامات کا اعلان کردیا گیا ہے ۔ بتدریج تجارتوں کو بحال کرنے کیلئے اقدامات بھی ہونے لگے ہیں۔ تعمیراتی سرگرمیاں شروع کردی گئی ہیںاور اس سے متعلقہ تجارتوں کیلئے بھی آسانیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ ان ساری کوششوں میں مڈل کلاس طبقہ ہی ایک ایسا طبقہ بن کر ابھرا ہے جس نے لاک ڈاون کی سب سے زیادہ مار جھیلی ہے اور اب بھی اس طبقہ کی درکار مدد کیلئے کوئی آگے آنے والا نظر نہیں آتا ۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے بھی عملا اس طبقہ کو فراموش ہی کردیا ہے ۔ آج وزیر فینانس نرملا سیتارامن نے کچھ اعلان کیا ہے تاہم انہوں نے مڈل کلاس طبقہ کو ہوم لون وغیرہ میں راحت کی بات کی ہے لیکن ان کی جیب میں رقومات منتقل کرنے کے تعلق سے کچھ نہیں کہا گیا ہے ۔ سب سے زیادہ ضرورت اسی بات کی ہے کہ مڈل کلاس طبقہ کی جیب میں بھی کچھ رقم ڈالی جائے تاکہ وہ اپنی ضروریات اپنے حساب سے پوری کرپائیں۔ اس طبقہ کی مدد کیلئے حکومت کو تنگ دلی سے کام نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی فنڈز کی کمی کا بہانہ کرنا واجبی ہوگا ۔ عملی طور پر مدد بہت ضروری ہے ۔
جہاں تک چھوٹی موٹی تجارتوں کا سوال ہے تو اس میں ہوسکتا ہے کہ 18 مئی کے بعد کچھ راحتیں دی جائیں اور کچھ نرمی بھی دی جائے تاہم اگر ایسی راحتیں اورنرمی دی جاتی تب بھی مڈل کلاس طبقہ کی جیب میں پیسے کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ جب عوام کی جیبوں میں کوئی پیسہ ہی نہیں ہوگا تو کسی بھی شئے کی خریداری ممکن نہیں ہوگی ۔ حکومت نے جو 20 لاکھ کروڑ روپئے کے پیاکیج کا اعلان کیا ہے اس کی تفصیلات کا قسطوں میں اعلان کیا جا رہا ہے ۔ معلنہ رقومات میں اب بھی لاکھوں کروڑ روپئے کی تفصیل باقی ہے ۔ حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ غریب اور متمول طبقہ کے ساتھ ساتھ مڈل کلاس طبقہ کو بھی راحت پہونچانے کیلئے کسی پیاکیج کا اعلان کرے اور اس طبقہ کی جیبوں میں پیسے ڈالنے کیلئے کسی اسکیم کا اعلان کرے ۔ اس طبقہ کو لاک ڈاون کے آغاز سے اب تک مسلسل نظر انداز ہی کیا گیا ہے ۔