“مکاتب کی ذمہ داریاں اور اردو زبان”/بقلم:سید احمد اُنیس ندوی

,

   

اس ملک میں اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت اور ہماری اولین ترجیح ہماری آئندہ نسلوں کے دین و ایمان کی حفاظت ہے۔ ہمارے 96% بچے ایسے اداروں میں عصری تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں ان کا دین و ایمان خود خطرات سے گھرا رہتا ہے چہ جائیکہ وہ وہاں اسلام کے سچے نمائندہ اور داعی بن کر زندگی گزاریں جو کہ اصل حق تھا۔ چنانچہ اس نازک دور میں اپنے نونہالوں کو دین و ایمان پر استقامت کے ساتھ قائم رکھنے کے لیے ایک طویل اور منصوبہ بند جدوجہد درکار ہے۔ اس جدوجہد میں سب سے بڑا کردار ہمارے “مکاتب” ادا کر سکتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں لاکھوں مکاتب کا ایک مبارک سلسلہ ہے جس سے ہمارے وہ بچے بھی وابستہ ہیں جو مختلف عصری تعلیم گاہوں میں پڑھائی کر رہے ہیں۔ یہ بچے بھی چند سال مکاتب کے بہانے مسجد کے ماحول سے جڑے رہتے ہیں اور گویا ایک امانت کے طور پر مکاتب کے حوالے رہتے ہیں۔ ایسے میں مکاتب کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ اگر مکاتب میں ان کو عقیدہ کی پختگی اور اعمال و اخلاق کی درستگی پر لے آیا جائے تو ان شاء اللہ یہ محنت ساری عمر اپنا اثر دکھاتی ہے۔ دینی شعور کو پروان چڑھانے کے لیے مکاتب کا دور بچوں کے لیے بڑا اہم ہے۔ ایسے میں مکاتب کو “اردو” زبان کی معیاری تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ ہمارا دینی و علمی سرمایہ عربی کے بعد سب سے زیادہ اردو میں موجود ہے۔ اردو میں کمزوری کا یہ بڑا نقصان ہوتا ہے کہ ہمارے مکاتب سے پڑھنے والے بچے آگے چل کر مفید دینی لٹریچر سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے اور ان کی دینی و علمی سطح میں مزید ترقی نہیں ہوتی۔ اس لیے تمام مکاتب میں اس بات پر خاص زور دیا جانا چاہیے کہ بچوں کی اردو زبان کی املا, عبارت خوانی اور تحریر بہت عمدہ ہو جائے۔ اور وہ اردو کی معیاری کتابوں سے بھی براہ راست استفادہ کر سکیں۔ جز وقتی مکاتب میں بھی تین چار سال کے عرصے میں یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ “اردو” کے تعلق سے یہ لا پروائی صرف مکاتب ہی نہیں اب تو مدارس میں بھی نظر آتی ہے, جس کی وجہ سے ہمارا تعلق اردو زبان سے دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ مکاتب کےذمہ داران سے اس جانب خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔ ہر شہر میں ذمہ دار علمائے کرام اس جانب اجتماعی طور پر توجہ فرمائیں تو یہ ایک بہت بڑی دینی خدمت ہوگی۔