مہاراشٹرا میں صدر راج

   

مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی کی انا نے آج مہاراشٹرا کو صدر راج کے سپرد کردیا ہے ۔ عوام نے اپنی آنکھوں سے کئی حکومتیں بنتی اور گرتے دیکھی ہیں لیکن مہاراشٹرا میں حکومت سازی کے لیے جاری کوششوں کے درمیان گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے مرکز سے سفارش کردی کہ مہاراشٹرا میں فوری صدر راج نافذ کردیا جائے ۔ انہوں نے ہفتہ کے دن بی جے پی شیوسینا اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کو حکومت سازی کے لیے دعوت دی تھی ۔ ان تین پارٹیوں میں سے کسی نے بھی تشکیل حکومت کا دعویٰ پیش نہیں کیا ۔ 24 اکٹوبر کو انتخابی نتائج کے بعد 20 دن گذر جانے کے بعد بھی کسی نے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش نہیں کیا تو گورنر کے لیے ریاست میں صدر راج کے نفاذ کی سفارش کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا ۔ لیکن گورنر کا فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے تو اس کے پیچھے مرکز کی حکمراں بی جے پی کی کوشش ہونے کا شبہ ظاہر کرتے ہوئے شیوسینا عدالت سے رجوع ہوئی ۔ گورنر نے اپنی دستوری ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں کوتاہی کی ہے تو اس کے نتائج افسوسناک نکلیں گے ۔ صدر راج کے نفاذ کا ارادہ کرنے والے گورنر کو مہاراشٹرا کی دیگر پارٹیوں کانگریس اور این سی پی سے مشاورت کرنی چاہئے تھی ۔ حکومت بنانے کے لیے بھی شیوسینا نے تاخیر سے کام لیتے ہوئے اپنی دیرینہ حلیف بی جے پی کو موقع سے فائدہ اٹھانے کی راہ فراہم کردی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شیوسینا فوری طور پر اپوزیشن پارٹیوں این سی پی و کانگریس سے مذاکرات شروع کرتی اور حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کرتی لیکن شیوسینا کے ساتھ این سی پی اور کانگریس کا اتحاد ہر ایک کے لیے حیرت کا باعث بن رہا تھا ۔ کانگریس نے شیوسینا سے ہاتھ ملانے میں پس و پیش کیا ۔ مہاراشٹرا کانگریس قائدین کے دباؤ میں پارٹی ہائی کمان کو شیوسینا کی تائید کرنے پر غور کرنا پڑا تھا ۔ یہ فیصلہ کانگریس کے لیے تکلیف دہ تھا ۔ تاہم وقت کو ٹالنے کے حربے کی وجہ سے ریاست میں صدر راج کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگئی ۔ فرقہ پرست پارٹیوں کے ساتھ کانگریس کے اتحاد کی بات ایک عجیب تو تھی لیکن کانگریس نے میزورم میں بی جے پی سے اتحاد کیا تھا ۔ میزورم کے چکمہ آٹونومس ڈسٹرکٹ کونسل میں ایک نامعقول اتحاد کر کے اپنا وقار ملیامیٹ کرلیا تھا ۔ اس لیے مہاراشٹرا میں اس نے شیوسینا سے دوستی کا ارادہ کرنے میں ہزار بار غور کیا ہوگا ۔ مخالف نظریات کی حامل پارٹیوں سے سیاسی اتحاد کوئی نئی بات بھی نہیں ہے ۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی نے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ( پی ڈی پی ) سے اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی ۔ اس مثال کو مد نظر رکھ کر مہاراشٹرا میں کانگریس ، این سی پی نے مل کر شیوسینا کی باہر سے تائید کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مگر تاخیر کی وجہ سے یہ اتحاد ہونے سے پہلے ہی گورنر مہاراشٹرا نے مرکز سے صدر راج کے نفاذ کی سفارش کردی اور صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے بھی اس سفارش کو قبول کرتے ہوئے صدر راج کے نفاذ پر اپنی مہر ثبت کردی ۔ یہ اچانک ہونے والی تبدیلی کو عدالتی چارہ جوئی کے ذریعہ نمٹا جاسکتا ہے ۔ شیوسینا عدالت سے رجوع تو ہوئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا عدالت میں اسے فوری انصاف مل سکے گا ۔ کانگریس اور این سی پی کو تیزی کے ساتھ اپنے اتحاد کا ثبوت پیش کرتے ہوئے گورنر کو مکتوب حوالے کرنے کی ضرورت تھی ۔ مہاراشٹرا کی حالیہ منتخب پارٹیوں نے احمقانہ رول ادا کرتے ہوئے یہ ثبوت دیا کہ وہ عوام کے منقسم خط اعتماد کے بعد کے حالات سے نمٹنے کی بھی اہل نہیں ہیں تو پھر حکومت چلانے کے اہل کس طرح ہوں گے ۔ عوام کو یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا وہ اس طرح کی پارٹیوں کو اپنا نمائندہ بنائیں گے جو سیاسی طور پر ایک مسئلہ کو حل کرنے کے بھی اہل نہیں ہیں ؟ بی جے پی نے اپنا انا کا دیا جلانے کے لیے گیاس کا چولہا کھلا چھوڑ دیا ہے ۔۔