مہاراشٹرا کی سیاست میں عدم استحکام

   

شیوسینا کیمپ میں ہی این سی پی ، کانگریس کی حمایت لینے سے متعلق ناراضگیاں پیدا ہوچکی ہیں تو تشکیل حکومت کا مسئلہ پھر ایک بار تعطل کا شکار ہوجائے گا ۔ اپنی دیرینہ نظریاتی حلیف پارٹی بی جے پی سے دوری اختیار کرنے کا اشارہ دینے والی شیوسینا کو اپنے ہی قائدین ، کیڈرس کی ناراضگی کا سامنا ہے ۔ شیوسینا کے کئی قائدین نے کہا ہے کہ حکومت بنانے کے لیے این سی پی صدر شردپوار سے ہاتھ ملانے کے بجائے بہتر ہے کہ بی جے پی سے ہی اتحاد بنالیا جائے ۔ نیز این سی پی صدر سے اتحاد کرنے سے قبل شیوسینا کو 10 مرتبہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ شیوسینا کے کئی قائدین اپنی پارٹی قیادت کے فیصلہ پر ناراض ہیں اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر یہ کس قسم کی سیاست ہے ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ مہاراشٹرا کی سیاست اس مرتبہ عدم استحکام کا شکار ہوئی ہے ۔ شیوسینا کو اپنے کیڈرس ہی سے فوقیت حاصل ہوئی ہے جب کیڈر ہی ناراض ہوجائے تو پھر کانگریس اور این سی پی سے تائید لیتے ہوئے حکومت بنانے کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔ شیوسینا کو یہ بات ہضم نہیں ہوگی کہ اس کی حکومت کی بیساکھی سیکولر پارٹیوں کی بنیادوں پر ٹکی رہے ۔ این سی پی ، کانگریس نے شیوسینا کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے تو اُدھو ٹھاکرے کو چیف منسٹر بنائے جانے کی راہ ہموار ہوگی لیکن جب پارٹی میں اس اتحاد پر اعتراضات ہوں تو حکومت سازی کا عمل بے فیض ثابت ہوگا ۔ عام خیال یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں جو کچھ ہورہا ہے یہ جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے اور مہاراشٹرا کا سیاسی تعطل بھی اچھی علامت نہیں لیکن نئی حکومت تشکیل بھی پاتی ہے تو اس کے دیرپا رہنے کا امکان نہیں ہے ۔ مہاراشٹرا کے رائے دہندوں نے ایک منقسم خط اعتماد دیا ہے تو اس فیصلہ کی روشنی میں ہی دو نظریاتی پارٹیوں بی جے پی ۔ شیوسینا کو اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے کی ضرورت تھی ۔ شیوسینا کو اس بات پر غصہ ہے کہ بی جے پی نے 50-50 کے فارمولہ کو روبہ عمل لانے سے انکار کیا ۔ اگر بی جے پی اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے تیار ہے تو پھر شیوسینا اپنی قدیم حلیف پارٹی سے ہی اتحاد کر کے حکومت میں شامل ہوگی ۔ اپوزیشن کی حیثیت سے این سی پی اور کانگریس کو اپنا رول ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ جب عوام نے ان دونوں پارٹیوں کو اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے ووٹ دیا ہے تو وہ عوام کے فیصلہ کا احترام کریں ۔ سیکولر پارٹیوں کی حیثیت سے عوام کا ووٹ لے کر ایک فرقہ وارانہ نظریاتی پارٹی کا ساتھ دینا گویا اپنے سیکولر رائے دہندوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ شیوسینا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ کانگریس اور این سی پی سے تائید لے کر وہ ایک پائیدار حکومت نہیں بنا سکے گی ۔ اس لیے کانگریس۔این سی پی سے اتحاد سے قبل شیوسینا کو دیگر امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ مہاراشٹرا کے سیاسی ماحول کے لیے بھی یہ اتحاد مناسب نہیں ہوگا ۔ اگر بی جے پی شیوسینا نے عوام کی رائے کا احترام نہیں کیا تو پھر انہیں آنے والے دنوں عوام کے سخت فیصلہ کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی طرح سیکولر رائے دہندے بھی این سی پی اور کانگریس کو دوبارہ ووٹ دینے پر مکرر غور کریں گے کیوں کہ ان سیکولر پارٹیوں نے ووٹ لے کر شیوسینا کا ساتھ دیا جو سیاسی اعتبار سے موقع پرستانہ فیصلہ کہلائے گا ۔ سیاست میں اقتدار کا لالچ صرف دوڑنا سکھاتا ہے اور یہ دوڑ کسی بھی نوعیت کی ہوسکتی ہے ۔ اقتدار کی خاطر ہر سیاسی پارٹی ارکان کی تعداد بڑھانے کی ریس میں شامل ہوجاتی ہے ۔ اس کے لیے سارے اصول اور ضابطے ایک طرف رکھ کر غیر نظریاتی غیر اصولی طور اتحاد کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں ۔۔