مہرولی انہدام۔ 2014تک خالی پڑی سرکاری اراضی پر قبضہ کیاگیا

,

   

وکیل نے کہاکہ ہر ایک درخواست کے حقائق کا جواب دینے والے ڈی ڈی اے کے مختصر حلف نامے 27فبروری تک داخل کیے جائیں گے۔


نئی دہلی۔دہلی ڈیولپمنٹ اتھاریٹی(ڈی ڈی اے) نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایاکہ لادھا سرائے گاؤں کی سرکاری اراضی جو مہرولی ارکیالوجیکل پارک کے تحت آتی ہے جہاں پر اتھارٹیز نے ایک انہدامی کاروائی چلائی ہے‘ پر قبضہ کیاگیاہے اور 2014کی ایک گوگل تصویر دیکھائی جس میں اسکو مکمل خالی دیکھایاجارہا ہے۔

ڈی ڈی اے نے کہاکہ یہ شہریوں کا لازمی اور بنیادی فرض ہے کہ وہ شہر کے ورثے کے ساتھ ساتھ جامع ثقافت کے تحفظ کویقینی بنائیں‘ جس کی ذمہ داری حکام سے تمام پرانی یادگاروں‘ آثارقدیمہ کے مقامات او رباقیات کی حفاظت کرنے اور انہیں بے ایمان لوگوں کے تجاوزات سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈی ڈی اے کی گذارشات مہرولی میں گرین اپارٹمنٹس کے رہائشیوں کا ایک عرضی کے جواب میں دائر کردہ ایک حلف نامہ میں کی گئی ہیں‘ جس میں متعدد دیگر املاک کے ساتھ ’انسداد تجاوزات‘ مہم کے ایک حصے کے طور پر مسمار کئے جانے کی نشاندہی کی گئی ہے۔

جسٹس منمیت پریتم سنگھ اروڑا کو ڈی ڈی اے کی وکیل شوبھنا تکیار نے بتایا کہ ایجنسی نے لینڈپٹیشن میں ڈسمبر2021حد بندی رپورٹ کے ساتھ ایک تفصیلی جوابی حلف نامہ داخل کیاہے۔

وکیل نے کہاکہ ایک درخواست کے حقائق کا جواب دینے والے ڈی ڈی اے کے مختصر حلف نامے 27فبروری تک داخل کیے جائیں گے۔


ہائی کورٹ نے اس معاملے کو 9مارچ کے لئے کرتے ہوئے کہاکہ جن لوگوں نے عدالت سے رجوع کیاہے ان کی جائیدادوں پر جمود برقر ار رکھنے کا عبوری حکم اس وقت تک جاری رہے گا۔

ایڈوکیٹ سدھانتھ کمار درخواست گذاروں میں سے ایک کے وکیل نے کہا ہے کہ مہرولی میں خاسارہ نمبر1151/3میں واقع ہے جس کا انہدام کے حکم نامے میں ذکر نہیں ہے لیکن اس کے خلاف انہدام کی کاروائی ابھی تک تجویز کی گئی تھی۔

اپنے حلف نامہ میں ڈی ڈی نے کہاکہ”لادھا سرائے گاؤں کی سرکاری اراضی جو مہرولی ارکیالوجیکل پارک کے تحت آتی ہے جہاں پر اتھارٹیز نے ایک انہدامی کاروائی چلائی ہے‘ پر قبضہ کیاگیاہے اور 2014کی ایک گوگل تصویر دیکھائی جس میں اسکو مکمل خالی دیکھایاجارہا ہے“۔

یہ دعوی کیاگیاہے کہ جس اراضی پر مبینہ طور پر تجاوزات کی گئی تھی وہ ڈی ڈی اے وقف بورڈاور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سمیت متعدد ایجنسیوں کی ہے۔