نئے دستور کی وکالت

   

اوسان نہ کھودے کہیں وحشت ترے آگے
دیوانہ تجھے دیکھ کے ہشیار نہ ہوجائے
نئے دستور کی وکالت
مرکز میں نریندرمودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے کئے گوشے مختلف سمتوں میں حکومت کو کھینچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اسٹیرنگ اس کے ہاتھ میں ہو اور وہ جس طرف چاہے حکومت کو لے جائے ۔ کبھی کوئی کہتا ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں رہنے کی اجازت نہیں ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ اس ملک میں یکساں سیول کوڈ نافذ ہونا چاہئے ۔ کوئی کہتا ہے کہ اس ملک کا دستور تبدیل کرنے کیلئے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے ۔ یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ نریندر مودی حکومت کے وزراء نے بھی کہی ہے ۔ وقفہ وقفہ سے حکومت ایک نیا فتنہ عوام میںپیش کرتے ہوئے ایک طرح سے ملک کے عوام کی رائے حاصل کرنے اور اس پر رد عمل معلوم کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ اب ایک نیا فتنہ سوشیل میڈیا پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس ملک کیلئے نیا دستور ہونا چاہئے ۔ یہ مطالبہ ایک کتابچہ میں کیا جا رہا ہے جس کے تعلق سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ آر ایس ایس کی جانب سے شائع کیا گیا ہے ۔ تاہم آر ایس ایس کے ایک عہدیدار نے ٹوئیٹر پراس کی وضاحت کی کہ اس کتابچہ سے آر ایس ایس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس کتابچہ سے آر ایس ایس کا کوئی تعلق ہو یا نہ ہو لیکن ایک حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی کی اندرونی خواہش یہی ہے کہ اس ملک کا دستور بدلا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کے وزراء تک یہی بات کرتے رہے ہیں اور اگر ایسا نہیںہوتا تو ایسی باتیںکرنیو الے وزراء کو کابینہ سے خارج کیا جاتا لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ گاندھی جی کو کوستے ہیں اور ان کی توہین کرتے ہیں ان کو حکومت میں بڑا مقام دیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناتھو رام گوڈسے کو عزت دینے والوں کو لوک سبھا کی نستیں فراہم کی جاتی ہیں اور انہیں سرکاری کمیٹیوں کا رکن بنایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کو چیف منسٹر اور مرکزی وزیر تک بنادیا جاتا ہے ۔ ملک کے مختلف بنیادی اور دستوری اداروں کو نشانہ بنانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب ملک کے دستور کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں شروع کردی گئی ہیں۔
ہندوستان کا نیا دستور بنانے کا شوشہ ایک فتنہ سے کم نہیں ہے ۔ بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیمیں بارہا اس ملک کے دستور پر حملے کرتی رہی ہیں۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اداروں اور تنظیموں کی جانب سے ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کے بنائے گئے اس دستور کو نذر آتش تک کیا گیا اور حکومت نے اس سے مجرمانہ چشم پوشی کی ہے ۔ ایسا کرنے والوںکو کیفر کردار تک نہیںپہونچایا گیا ہے اور نہ ان کے خلاف کسی طرح کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ الٹا اس دستور کے پیش لفظ کو پڑھنے والوںکو جیل کی ہوا کھانے پر مجبور کردیا گیا ۔ ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا تھا ۔ دستور کی گنجائشوں اور دفعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے سیاسی مقصد براری کی جاتی ہے اور یہی وہ سوچ اور نظریہ ہے جس کے تحت اب دستور کو تبدیل کرنے اور نیا دستور رائج کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ آر ایس ایس کی جانب سے وقفہ وقفہ سے نت نئے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ سماج میں پیدا ہونے والی بے چینی کو خاطر میں لانے سے گریز کیا جاتا ہے اور ایسے شوشوں پر عوامی رد عمل پرکھتے ہوئے پھر ایسے مطالبات کو شدت سے پیش کرنے کا حربہ اختیار کیا جاتا ہے ۔ اب جو کتابچہ سوشیل میڈیا پر گشت کروایا جا رہا ہے اور دستور تبدیل کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ بھی اسی طرح کی کوئی سازش یا کوشش کا حصہ ہی نظر آتا ہے ۔
اس طرح کے کتابچہ کی گشت کروانے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانا ضروری ہے ۔ نریندر مودی حکومت کو اگر ملک کا دستور اور دستور بنانے والے ڈاکٹر امبیڈکر سے واقعی میں عقیدت ہے تو پھر ایسا کتابچہ گشت کروانے والوں کا پتہ چلا کر ان کے خلاف مقدمات درج کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کوشش سے سماج میں جو پہلے ہی سے نراج اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے وہ اور بھی سنگین ہوگی ۔ اس کو حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اگر حکومت نے ایسا کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور ان کے خلاف مقدمات درج نہیں کئے گئے تو پھر حکومت کی نیت پر بھی سوال پیدا ہونے لگیں گے ۔ دستور اس ملک کے نظام کا مرکزی حصہ ہے اورجز و لازم ہے ۔ اس میں تبدیلی کی باتیں سماج میں بد امنی ‘ بے چینی اور نراج پھیلانے کا باعث بنسکتی ہیں اور ان کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔