ناموں کی تبدیلی ‘ انتخابی ایجنڈہ ؟

   

بی جے پی ملک بھر میں شہروں اور مقامات کے نام تبدیل کرنے کیلئے شرہت رکھتی ہے ۔ ملک میں کئی شہروں کے اور ٹاؤنس کے نام تبدیل کردئے گئے ہیں۔ کئی ریلوے اسٹیشنوں کے ناموں کی بھی تبدیلی عمل میںلائی گئی ہے ۔مسلم ناموں کو ختم کرتے ہوئے ہندو ناموںکا رواج شروع کردیا گیا ہے ۔ کئی شہروں اورچوراہوں کے نام بھی بدلنے کیلئے باضابطہ مہم چلائی جا رہی ہے ۔ ایسے میںغیر بی جے پی جماعتوں نے بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ تاہم اب تلنگانہ میں ایسا لگتا ہے کہ برسرا قتدار بی آرا یس کو بھی اقتدار کیلئے نرم ہندوتوا اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔ بی جے پی کے نام سے مسلمانوں کو خوفزدہ کرتے ہوئے ان سے کئے گئے وعدوں کو فراموش کرنے والی بی آر ایس خود اب ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہروں کے مسلم ناموں کو تبدیل کرنا شروع کرچکی ہے ۔ ویسے بھی چیف منسٹر کے سی آر پر مسلم روایات اور نشانیوںکو ختم کرنے کے الزامات پہلے ہی سے عائد کئے جا رہے ہیں۔ چیف منسٹر نے سیکریٹریٹ کو منہدم کرکے نئی عمارت اسی لئے تعمیر کروائی کیونکہ یہ نظام دور حکومت کی تعمیرات تھیں۔ اس کے علاوہ عثمانیہ دواخانہ کو بھی منہدم کرتے ہوئے نئی عمارت تعمیر کرنے کے منصوبے تیار کرلئے گئے ہیں۔ اسی طرح کے اقدامات کے ذریعہ ایسا لگتا ہے کہ بی آر ایس نرم ہندوتوا اختیار کرنے کی پالیسی اختیار کرنے لگی ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بی آر ایس کے رکن اسمبلی نے تو کھلے عام نظام آباد شہر کا نام ہی تبدیل کرنے کا آغاز کردیا ہے ۔ انہوں نے ترقیاتی کاموں کے ایک اشتہار میں نظام آباد شہر کو ’ اندورو ‘ قرار دیتے ہوئے تحریر کیا ہے ۔ یہ در اصل فرقہ پرستانہ ذہنیت کی ایک واِضح مثال ہے ۔ اس سے قبل حکومت تلنگانہ کے ایک اشتہار میں بھی حیدرآباد کو بھاگیہ نگر تحریر کیا گیا تھا ۔ اس وقت بھی کچھ تنقیدیں ہوئی تھیں جس کے بعد یہ غلطی نہیں دہرائی گئی تھی ۔ اب نظام آباد کے نام کو اندورو کرنے کا عملی سلسلہ خود بی آر ایس کے رکن اسمبلی کی جانب سے شروع کردیا گیا ہے ۔ اس اشتہار سے بی آر ایس رکن اسمبلی کی ذہنیت اور ان کے منصوبوں کا پتہ چلتا ہے ۔
جہاں تک ناموں کی تبدیلی کا سوال ہے تو ایسا لگتا ہے کہ بی آر ایس ‘ بی جے پی سے سبقت لے جانا چاہتی ہے اوریہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ناموں کی تبدیلی پر صرف بی جے پی کی اجارہ داری نہیں ہے اور اس معاملے میں بی آر ایس بھی بی جے پی سے آگے ہی ہے ۔ ریاست تلنگانہ کیلئے جب مہم چلائی گئی تھی اس وقت سے ٹی آر ایس نے ( جو اب بی آر ایس ہوگئی ہے ) مسلمانوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے نظام سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا ۔ مسلم حکمرانوں کو خراج پیش کیا گیا تھا ۔ ان کے کارناموں کو بیان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی تھی ۔ ہندو ۔ مسلمانوں کو دو آنکھیں قرار دیا جانے لگا تھا ۔ تاہم اچانک ہی حالیہ دو تا تین برسوں میں جب چندر شیکھر راؤ حکومت کی دوسری معیاد چل رہی ہے مسلمانوں سے ترک تعلق کیا جانے لگا ہے ۔ مسلمانوں کیلئے اسکیمات کا اعلان کیا جا رہا ہے لیکن بجٹ نہیں دیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں سے جو انتخابی وعدے کئے گئے تھے انہیں فراموش کردیا گیا ہے ۔ ان کا تذکرہ تک نہیں کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کو بی جے پی کے اقتدار سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تلنگانہ میں بی جے پی سیاسی اہمیت کھوتی جا رہی ہے ۔ ریاست میں عوام کو احساس ہوچکا ہے کہ انتخابی میدان میں اصل مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ہی ہوگا ۔ اس کے باوجود بی آر ایس مسلمانوں گمراہ کر رہی ہے اور اب نرم ہندوتوا پالیسی اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ نظام آباد کے نام کو اندورو تحریر کرنا اس کا ثبوت ہے ۔
جس طرح سے بی جے پی سارے ہندوستان میں ناموں کی تبدیلی کیلئے مہم چلاتی ہے اور بے شمار نام تبدیل بھی کردئے گئے ہیں اسی روش کو تلنگانہ میں لانے کا ابتداء بی آر ایس کرچکی ہے ۔و ہ شائد اس معاملے میں بی جے پی کو کوئی موقع دینا نہیں چاہتی بلکہ ناموں کی تبدیلی کا سہرا بی آر ایس اپنے سر ہی لینا چاہتی ہے ۔ تاہم یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کیونکہ مسلمانوں کی تائید و حمایت سے اقتدار حاصل کرنے والی بی آر ایس آج مسلم ناموں ہی کو ختم کرنے کی سازش رچتی نظر آر ہی ہے ۔ بی آر ایس کی سیاسی مفادات کیلئے اس طرح کی چالبازیاں افسوسناک ہیں اور تلنگانہ کے مسلمانوں اس کا نوٹ لینے کی ضرورت ہے ۔