نبی کریم ﷺ کے فضائل و معجزات

   

ابوزہیرسیدزبیرھاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
ماہِ ربیع المنور کی آج بارہ تاریخ ہے، جس میں حبیبِ خدائے تعالیٰ حضرت سیدنا محمدِ عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ہے۔ یقینا یہ تاریخ سارے اہل مومن کیلئے ایک بڑا احسان ہے۔ ہماری یہ ذمہ داری ہونی چاہئے کہ احکامِ خدا و رسول کے ذریعہ دارین میں کامیابی و کامرانی حاصل کریں۔

اہل ایمان و اسلام کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمارے دین میں ادب کی نہایت ضرورت ہے، جب تک اہل اسلام میں کامل طور پر ادب رہا، دن دونی رات چوگنی ترقی ہوتی رہی۔ چنانچہ صحیح حدیث شریف میں وارد ہے جو مشکوۃ شریف میں مذکور ہے کہ فرمایا نبی کریم ﷺ نے کہ ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ ایک جماعت جہاد کریگی۔ پوچھا جائیگا کہ آیا تم میں کوئی صحابی بھی ہے؟ کہا جائے گا: ہاں! تو اس وقت ان کو فتح ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئیگاکہ ایک جماعت جہاد کریگی۔ پوچھا جائے گا کیا تم میں ایسا کوئی شخص بھی ہے جو صحابہ کے ساتھ رہا ہے؟ کہا جائیگا ہاں! تب ان کو فتح ہوگی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ ایک جماعت جہاد کریگی۔ تو پوچھا جائیگا کہ تم میں کوئی شخص ایسا بھی ہے، جو ان لوگوں کو دیکھا ہو جنہوں نے صحابہ کو دیکھا؟ تب ان کو فتح ہوگی۔ اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ کی برکت سے لوگ فتحیاب ہوا کرتے تھے۔ جو کمال درجہ کے آداب داںتھے۔ برخلاف اس کے اس زمانہ میں بے ادبی اکثر لوگوں میں آگئی اسی وجہ سے بجائے ترقی ، تنزل روزافزوں ہے۔ اگر ہم لوگ اپنی حالت کو درست کرلیں تو کیا تعجب کہ ہم پر پھر فیضان الہی نزول کرنے لگے۔ مگر اس زمانہ میں ممکن نہیں کہ سب یہ طریقہ اختیار کریں۔ ایسے موقع میں بہتر یہی ہے کہ آدمی صرف اپنی ذات سے عمل کرلے۔ اوروں کی فکر نہ کرے۔
حضرت شیخ الاسلام بانی ٔجامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ مقاصدالاسلام، حصہ یازدہم میں تحریر فرماتے ہیں کہ مشکوۃ المصابیح میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سےرویت ہے، جس کا ماحصل یہ ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے کہ جب لوگوں میں اختلاف پڑجائے تو جن چیزوں کو تم جانتے ہو، ان پر عمل کرو اور جن چیزوں کو نہیں جانتے انکو چھوڑدو۔ اور اپنی ذات کی فکر لو۔ عوام کو ان کی حالت پرچھوڑدو۔ انتھی ملخصا۔
غرض کہ کوئی کچھ بھی کہے ہمیں اس بات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے سبق لینے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے اسلام کی ابتداء انہیں سے ہوئی۔ اور قاعدہ کی بات ہے کہ جن امور سے ابتداء ہوتی ہے وہی قابل استناد ہوا کرتے ہیں۔
یہی بات اس صحیح روایت سے جو مشکوۃ شریف میں ہے، ثابت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے کہ بنی اسرائیل کے بہتر(۷۲) فرقے ہوگئے تھے اور میری امت کے تہتر(۷۳) فرقے ہوجائیں گے۔ وہ سب دوزخ میں جائیں گے۔ سوائے ایک فرقہ کے۔ صحابہ نے پوچھا وہ فرقہ کون ہے؟ فرمایا وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں گے۔ انتہی۔
اس روایت سے ضرورت اس امر کی ثابت ہوتی ہے کہ معاملہ آداب میں صحابہ کا طرزعمل کیسا رہا، تلاش کرکے ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔

حدیث شریف میں وارد ہے کہ جب حضرت سیدنا آدم علیہ السلام جنت سے نکلے تو دیکھا کہ ساق عرش پر اور جنت میں ہر جگہ نام محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالی کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔ عرض کیا یارب یہ محمد کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ وہ تمہارے فرزند ہیں۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ عرض کیا یا رب اس فرزند کی حرمت سے اِس والد پر رحم کر۔ ندا آئی کہ اے آدم : اگر تم محمد(ﷺ) کے وسیلہ سے کل زمین و آسمان والوںکے حق میں سفارش کرتے تو بھی ہم قبول کرلیتے۔اور ایک حدیث شریف میں وارد ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺنے جب آدم علیہ السلام سے خطاصادر ہوئی تو عرش کی طرف سر اٹھا کر دعا کی الہی بحق محمدﷺ مجھے بخش دے۔ان پر وحی ہوئی کہ محمدکون؟ عرض کیا الہی جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے عرش کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس پر لکھا ہے لا الہ الا ﷲ محمد رسول ﷲ اس سے میں نے یہ جانا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہے اس سے زیادہ کسی شخص کا مرتبہ تیرے پاس نہ ہوگا۔ وحی آئی کہ اے آدم تمہاری اولاد میں وہ سب نبیوں کے اخر ہوں گے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں تم کو بھی پیدا نہ کرتا۔ انتھی

خصائص کبری میں ہے کہ ایک انصاری آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہے یارسول اللہ ﷺہمارا ایک اونٹ ہے، وہ سرکش ہوگیا۔ کوئی اس کے نزدیک جا نہیں سکتا۔ حضرت ﷺ اُٹھے اور ہم بھی حضرت کے ہمراہ ہوئے۔ جب وہاں پہنچے اور دروازہ کھولا گیا تو وہ اونٹ آیا۔ اور حضرت کے روبرو سجدہ میں گرکر ، گردن زمین پر رکھ دی، پھر حضرت ﷺ نے اس کی مہار منگواکر اس کی ناک میں ڈال دی اور ان لوگوں کے حوالہ کردیا۔ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے کہا یارسول اﷲ ﷺ اس نے پہچان لیا کہ آپ نبی اﷲ ہیں۔ فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں جو مجھے نہ جانتی ہو کہ میں اﷲ کا رسول ہوں۔سوائے کفار جن و انس کے۔ انتھی
مادۂ عالم پر حکومت ہونا اکثر واقعات سے ثابت ہے۔ غرض کہ ملک اور ملکوت کی سلطنت آپ کو حق تعالی نے عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک روز ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ یکایک ابر نمودار ہوا۔ حضرت نے فرمایا ایک فرشتہ مجھ پر سلام کیا اور کہا کہ میں آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہونے کی اجازت ہمیشہ خدائے تعالی سے چاہتا تھا۔ اس وقت مجھے اجازت ملی۔ میں آپ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ خدائے تعالی کے نزدیک آپ سے زیادہ کوئی مکرم اور بزرگ نہیں۔ انتھی
مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ ایک قوم حاملین قرآن یعنی حفاظ، دوزخ میں داخل کی جائے گی۔ ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھلادیا جائے گا۔ جبرئیل علیہ السلام جاکر ان کو حضرت حضرت نبی کریم ﷺکا نام مبارک یاد دلائیں گے۔ جب وہ نام مبارک کو ذکر کریں گے تو دوزخ کی آگ بجھ جائے گی۔اور سمٹ کر ان سے علحدہ ہوجائے گی۔ انتھی
مطلب یہ کہ جس قدر حصہ آگ کا ان کو جلاتھا وہ کچھ تو بجھ جائے گا اور کچھ سمٹ کر دور ہوجائیگا۔ اب خیال کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر عظمت و شوکت ہے کہ صرف آپ کے نام مبارک کے ذکر کرنے سے دوزخ کی آگ ہٹ جائیگی، بلکہ سرد ہوجائے گی۔ حالانکہ وہ آگ کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتی۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ اگر ایک چنگاری اس کی زمین پر ڈالی جائے تو پتھروں کو جلاتے ہوئے پانی کوچیر پھاڑ کر دوزخ تک پہنچ جائے گی۔
مواہب لدنیہ میں متعدد طریق سے یہ روایت ہے کہ سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور بعض صحابہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت سے فارغ ہوتے تو فضلہ کو زمین نگل جاتی۔ اور اس مقام میں خوشبو مہکتی رہتی تھی۔ انتھی ملخصا
زمین کو اس متبرک فضلہ کی قدر تھی۔ اس لئے حلوائے بے دود کی طرح اس کو نگل جاتی تھی۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے کہ زمین اس کو رغبت سے نگل جائے۔ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت اور لوگوں کی خیرخواہی کا خیال تھا کہ وہ فضلہ کوئی دیکھنے نہ پائے، کیونکہ فضلہ نجس اور مکروہ سمجھا جاتا ہے۔ مبادا کہ کسی کو بمقتضائے طبیعت مکروہ معلوم ہو اور وہ بے ادبی کے حد میں داخل ہوجائے بہرحال کسی غرض سے ہو فضلات کو زمین کا نگل جانا ، اس بات پر دلیل ہے کہ تمام عالم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو عظمت تھی اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ کیونکہ جو خصوصیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ ممکن نہیں کہ دوسرے میں پائے جاسکیں۔
دیکھئے اس عالم میں جوچیز پہلے پیدا کی گئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مبارک تھا جیسا کہ اس روایت سے ثابت ہے۔ جومواہب لدنیہ میں مذکور ہے۔
مواہب میں لکھا ہے کہ ابن عساکر نے روایت کیا ہے کہ حق تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ میں نے دنیا اور اس کے لوگوں کو اس واسطے پیدا کیا کہ آپ کی کرامت اور منزلت جو میرے نزدیک ہے ان کو معلوم کراؤں۔ اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا۔ انتھی
حضرت شیخ الاسلام بانی ٔجامعہ نظامیہ رحمۃ اللہ علیہ مقاصدالاسلام، حصہ یازدہم میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض مہربان جب حدیث ’’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘ سنتے ہیں تو بطور طعن و تعصب کہتے ہیں کہ یہ تو محدثین کے نزدیک بے اصل ہے، وہ اسی کو بڑی بات سمجھ رہے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے افلاک پیدا ہوئے۔ حالانکہ وہاں تو یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو جنت ہوتی نہ دوزخ۔ نہ آدم نہ دنیا۔ یہ سب آپ کے طفیلی ہیں۔ مقصود بالذات اس آفرینش سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور آپ کی کرامت و منزلت کا اظہار ہے۔ اس کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے کہ قبل تخلیق ملائک و غیرہ حضرت کا نام عرش وغیرہ مقامات میں لکھا گیا۔ غالبًا یہاں اس پر زور دیا جائیگا کہ قرآن شریف میں ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ یعنی جن و انس کو حق تعالی نے صرف عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔ اس لئے یہ کل حدیثیں موضوع ہیں۔ مگر ایسی بات ذرا سمجھ کر کہنا چاہئے۔
خصائص کبری میں روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جنت کے درختوں کے ہر پتے پر ’’لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘ لکھا ہے۔
مواہب لدنیہ میںکعب احبار سے مروی ہے کہ (حضرت سیدنا) آدم علیہ السلام نے اپنے فرزند شیث علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اے فرزند تم میرے بعد میرے خلیفہ ہو۔ پس خلافت کو عمارت تقوی اور دستگاہ محکم کے ساتھ لو اور جب یاد کرو تم اللہ تعالی کو تو اُس کے متصل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام ذکر کیا کرو۔ میں نے ان کا نام ساق عرش پر لکھا دیکھا ہے، جب میں روح اورکیچڑ میں تھا ، پھر آسمانوں پر پھر کرد یکھا تو کوئی ایسی جگہ نہیں، جہاں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا نہ ہو۔ اور میرے رب نے مجھے جنت میں رکھا تو وہاں کوئی محل اور کوئی بالاخانہ اور برآمدہ ایسا نہیں دیکھا، جس پر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا نہ ہو۔ اور تمام حوروں کے سینوں پر اور جنت کے درختوں کے اور شجرطوبی اور سدرۃ المنتہی کے پتوں پر اور پردوں کے اطراف اور فرشتوں کی آنکھوں کے بیچ میں نام محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہوا ہے۔ اس لئے اکثر ان کا ذکر کیا کرو۔ فرشتے قدیم سے ہر وقت ان کا ذکر کیا کرتے ہیں۔ انتہی

رسالت کی شان بفضلہ تعالی نصوص و احادیث سے ثابت ہوگئی۔ مگر یہ معلوم نہیں ہوا کہ ہمارے عالم کی اصطلاح کے موافق اس کو کیا سمجھنا چاہئے۔
احادیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح ہمارے عالم میں پادشاہ ہوتا ہے۔ عالم روحانی میں رسالت ہے۔ یہ ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے، بلکہ حدیث شریف سے ہمیں اس کا ثبوت ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں ابوسعیدرضی اﷲعنہ سے روایت ہے کہ فرمایا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر نبی کیلئے دو وزیر آسمان والوں سے ہوتے ہیں اور دووزیر زمین والوں سے۔ میرے آسمانی وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں۔ اور زمین کے ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما۔ انتھی (ترمذی شریف)

باوجود یہ کہ فرشتوں کی جبلت میں داخل ہے کہ جس کام کیلئے مامور ہیں ہمیشہ اس کام میں لگے رہتے ہیں۔ مگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کا ان کو کچھ ایسا شوق تھا کہ خدائے تعالی سے ہمیشہ درخواست کرتے تھے۔ آخر وہ ان کا شوق پورا ہوا ۔

خصائص کبری میں زید بن ارقم سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مدینہ کو جارہا تھا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک اعرابی کے خیمہ پر ہوا۔ دیکھا کہ ایک ہرنی بندھی ہوئی ہے۔ اس نے کہا یارسول اللہ ! مجھے یہ اعرابی نے شکار کرکے لایا ہے۔ میر دوبچے جنگل میں ہیں اور میرے تھنوں میں دودھ جم گیا ہے نہ مجھے ذبح کرتا ہے کہ اس درد سے راحت پالوں اور نہ چھوڑتا ہے کہ اپنے بچوں کو دودھ پلاؤں۔ حضرت نے اس سے فرمایا اگر میں تجھے چھوڑدوں تو کیا تو لوٹ کر آئے گی؟ کہا ضرور آؤں گی اور اگر نہ آؤں تو خدائے تعالی مجھ پر وہ عذاب کرے جو کروڑگیری کے محصول وصول کرنے والوں پر کرتا ہے۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑدیا۔ تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ وہ آگئی۔ اور اعرابی بھی آیا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا تم اس ہرنی کو بیچوگے؟عرض کیا وہ یوں ہی حاضر ہے، حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑدیا۔ زیدبن ارقم کہتے ہیں کہ خدا کی قسم میں اسے دیکھا کہ جنگل میں یہ کہتی ہوئی جارہی تھی کہ ’’لاالہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ‘‘۔ انتھی