ندوہ کمپیوٹر سینٹر کے تقسیمِ اسناد کے اجلاس میں خطیب العصر مولانا سید سلمان حسینی ندوی کا خطاب ۔

,

   

ملک کے موجودہ حالات میں ہمیں جس طریقہ پر کام کرنا ہے وہ بڑا نازک ہے۔ ملک میں قیادت اور صحیح فکر کا ایک خلا پیدا ہوگیا ہے، لوگوں کو دین کی بات پہنچانے کے لیے اچھے فکر اور سوچ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اچھے کاموں کے ساتھ ساتھ مثبت طریقہ پر کام ہونے چاہیے۔ اس کام کے لیے نوجوانوں کو آگے آنا ہے اور صحیح فکر کے ساتھ کام کرتے ہوئے دنیا میں اسلام کی دعوت پہنچانے کا عزم مصمم کرنا زمانہ کا تقاضہ بن گیا ہے۔

ان باتوں کا اظہار حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے ندوہ کمپیوٹر سینٹر کے تقسیمِ اسناد پروگرام میں کیا۔یاد رہے کہ امسال اس سینٹر سے پچاس طلباء نے اپنی تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کرتے ہوئے سے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

مولانا موصوف نے ندوہ کمپیوٹر کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت لوگوں کو کمپیوٹر کا تلفظ معلوم نہیں تھا اور اس بات سے لوگ جب بالکل ناواقف تھے تو جمعیت شباب اسلام کے زیر اہتمام ندوہ میں زیر تعلیم نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھانے اور اس کے استعمال سے پوری دنیا میں اسلامی پیغامات عام کرنے کے طریقوں سے واقفیت کے لیے اس سینٹر کا آغاز کیا گیا جس کے ذریعہ سے عوام خصوصاً اہلِ مدارس کو ایک اچھا پیغام ملا۔

مولانا نے جمعیت کے قیام کی وجوہات بھی بیان کرتے ہوئے اس کی خدمات پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ 1974میں اس کا آغاز ہوا اور دھیرے دھیرے کام کو وسعت دی جاتی رہی۔ لیکن گزرتے ایام کے ساتھ اس کے کام وسعت نہیں ملی، 1982میں دوبارہ کو اس کو زندہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے منظم انداز میں دوبارہ کام شروع کیاگیا۔

جنہوں نے اس دورکو دیکھا ہے انہیں یاد ہے کہ جس وقت لکھنو کے عوام ندوہ سے واقف نہیں تھے اور رکشہ والوں کو ندوہ کا پتہ بتانے کے لیے مختلف طریقے استعمال کرنے پڑتے تھے۔ اس تحریک کے ذریعہ سے لکھنو کے تمام محلوں اور مسجدوں میں ہمارے طلباء پہنچے جنہوں نے وہاں پر مکاتب کا نظام شروع کرتے ہوئے لوگوں کو دین سے جوڑنے کی کوشش کی۔

اس تحریک کے کام کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر، انجینئرس، عام عوام سبھی طبقہ کے لوگ اس سے فائدہ اٹھانے لگے اور ندوہ میں تعلیمی اور فکری طریقہ سے ایک تبدیلی محسوس کی جانے لگی۔ اس تحریک کو حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ اور ان جیسے دیگر علماء ربانیین کے ذریعہ تقویت ملی جنہو ں نے خود اس کے پروگرام میں شرکت کرتے ہوئے نوجوانوں کو اس سے جڑنے کی صلاح دی۔

مولانا نے سماجی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں جمعیت کی خدمات پر مختصراً روشنی ڈالتے ہوئے اس سلسلہ میں پیش رفت نہ ہونے اور اس کام کو تقویت نہ ملنے کے اسباب بھی بیان کیے۔

شوشیل میڈیا کا دور دورہ ہونے کے بعد اس کی اہمیت بھی لوگوں کے سامنے کھل کر بیان کی گئی اور جب بات ٹی وی چینل کی آئی تو اس سلسلہ میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے کوشش بھی کی گئی لیکن اس کوشش سے بھی لوگوں کو وہ فائدہ حاصل نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔

مولانا نے اس تحریک کو جلا بخشنے اور اس سے جڑنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک سبھوں کی ہے اور اس کے ذریعہ سے لوگو ں کو اپنی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کا فریضہ کی انجام دہی کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے اور صحیح فکر پیش کرتے ہوئے لوگوں کے تمام طبقات کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے ۔