نریندر مودی حکومت کی دوسری معیاد

   

رات کے گزرتے ہی اور ایک رات آئی
آپ تو یہ کہتے تھے دن نکلنے والا ہے

نریندر مودی حکومت کی دوسری معیاد
ملک میں لوک سبھا انتخابات 2019 کا عمل اپنے اختتام کو پہونچ رہا ہے ۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور این ڈی اے کی دوسری اتحادی جماعتوں نے انتخابات میںشاندار کامیابی حاصل کرلی ہے اور مسلسل دوسری مرتبہ وہ اکثریتی رائے سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ویسے تو یہ قیاس اور اندازے پہلے ہی سے لگائے جا رہے تھے کہ نریندر مودی کی قیادت میںبی جے پی کو دوسری معیاد کیلئے عوام کی تائید حاصل ہوجائے گی تاہم یہ شائد کسی کے وہم و گمان میں نہیں رہا تھا کہ حکومت اس قدر زیادہ بھاری اکثریت سے منتخب ہو پائیگی ۔ ایک عام تاثر یہ پایا جا رہا تھا کہ مودی اگر دوبارہ وزیر اعظم بنتے بھی ہیں تو انہیں اپنی حلیف جماعتوں کے رحم و کرم پر رہنا پڑیگا تاہم ایسا نہیںہوا بلکہ انہوں نے تمام اندازوں اور قیاس آرائیوں کو ختم کرتے ہوئے مثالی کامیابی حاصل کرلی ہے اور حلیف جماعتیں اور اتحادی قائدین اب بی جے پی کے رحم و کرم پر ہیں۔ پہلی معیاد کی تکمیل کے آخری مراحل تک جب انتخابات کے شیڈول کا اعلان ہورہا تھا بی جے پی کی حالت نسبتا کمزور دکھائی دے رہی تھی لیکن جس طرح سے کہا جار ہا ہے کہ قوم پرستی کے نعرہ کو بی جے پی نے جس شدت کے ساتھ پیش کیا تھا اس نے رائے دہندوں پر اپنا اثر دکھایا ہے اور بی جے پی اور نریندر مودی کی تشہیری صلاحیتوںاور پارٹی کی زبردست مشنری نے انہیںاس معاملہ میں دوسرے سے کہیںآگے پہونچا دیا ہے ۔ اب جبکہ نریندر مودی دوسری معیاد کیلئے ہندوستان جیسے عظیم ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ کا حلف لیں گے ان پر دوہری ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے ۔ جو کام انہوں نے اپنی پہلی پانچ سالہ معیاد میں نہیں کئے ملک و قوم کی ترقی کیلئے انہیں اس بار انہیں آگے بڑھانے کی ضرورت ہوگی ۔ جو نعرے انہوں نے ملک کے عوام کے سامنے پیش کئے ہیں ان کو پورا کرنا چاہئے اور ہندوستان کے عوام نے ان پر جس مثالی اعتماد کا اظہار کیا ہے انہیں اس کا پورا پورا لحاظ کرتے ہوئے حکومت کی پالیسیاں اور پروگرامس تیار کرنے چاہئیں۔ دوسری معیاد میں حکومت پر ذمہ داری اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے ۔
نریندر مودی اور ان کی جو ٹیم کابینہ کی شکل میں بنے گی اسے اس بات کا پورا خیال رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ ہندوستان کے ہر طبقہ اور ہر فرقہ و مذہب کے ماننے والوں کو ساتھ لے کر چلے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرہ کو حقیقی معنوں میں پیش کرنے کی کوشش کی جائے ۔ اس کو عملی طور پر اختیار کرنے کی کوشش کی جائے اور ہر ہندوستانی شہری کے دل میں یہ احساس پیدا کیا جانا چاہئے کہ ملک جو ترقی کر رہا ہے اس پر چند مٹھی بھر کارپوریٹ اداروں کا ہی نہیں بلکہ ہر شہری کا برابر اور مساوی حق ہے ۔ حکومت کو اس طرح کی پالیسیاں اور پروگرامس مرتب کرنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ سماج میں امتیاز کا خاتمہ ہو اور ہر ایک کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے ۔ کسی کو نیچا دکھانے یا انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کے کوششوںکی نفی کی جانی چاہئے ۔ حکومت نے تو اکثریتی رائے سے کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن اکثریتی سیاست کرنے سے اسے گریز کرنا چاہئے ۔ ایک مثالی کامیابی حاصل کرنے کے بعد حکومت کو اپنے اقدامات سے اس ملک میں مثال قائم کرنی چاہئے ۔ وہ اپوزیشن سے تعاون لینے کے معاملہ میں ہو یا ان کی آواز سننے کے معاملہ میں ہو حکومت کو وسیع القلبی کے ساتھ کام کرنا چاہئے ۔ جو لوگ حکومت کے مخالف رہے ہیںان کی رائے کا بھی احترام کیا جانا چاہئے کیونکہ یہی جمہوریت اور خاص طور پر ہندوستانی جمہوریت کی انفرادیت ہے ۔
گذشتہ پانچ سال میں جس طرح سے ہندوستان بھر میں مختلف گوشوں کی جانب سے ڈر و خوف کی سیاست پھیلانے کی کوشش کی گئی تھی ان کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ آج حکومت پورے استحکام کے ساتھ قائم ہونے جار ہی ہے ایسے میںحکومت کو خوف کی سیاست کرنے کی بجائے اعتماد کی سیاست پر توجہ دینا چاہئے ۔ ہر شہری کو یہ احساس دلانا چاہئے کہ اس کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز نہیں ہوگا ۔ اس ملک کے جو دستوری اور بنیادی حقوق ہیں وہ کسی کے بھی تلف نہیں کئے جائیں گے اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دی جائے ۔ بحیثیت مجموعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس زیادہ اکثریت اور عوامی تائید سے مودی حکومت دوسری معیاد کیلئے منتخب ہوئی ہے اس پر ذمہ داری بھی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے اور اس کا پورا لحاظ رکھا جانا چاہئے ۔