نسلی برتری ذات پات پر مبنی امتیاز انسانیت کیلئے خطرہ

   

پی چدمبرم سابق مرکزی وزیر داخلہ

حال ہی میں امریکہ کے ایلن ٹکساس میں ایک ہندوستانی شہری 27 سالہ ایشوریہ تھائی کونڈہ کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ ایک شاپنگ مال گئی تھی اور ہفتہ کے آخر میں اکثر لوگ وقت گذاری اور تفریح کے لئے حسب معمول شاپنگ مالس جایا کرتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک سابق سیکوریٹی گارڈ ماریسیو گریسیا نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس میں ایشوریہ اور دوسرے سات لوگ بھی اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ قاتل 8 مقتولین میں سے کسی کو بھی نہیں جانتا تھا اور ان میں سے کسی کے خلاف اس کی کوئی خصومت یا دشمنی بھی نہیں تھی۔ گریسیا کے سوشل میڈیا صفحات کا جائزہ تفصیلی جائزہ لینے سے پتہ چلا کہ وہ ایسا سفید فام باشندہ ہے جو سفید فام باشندوں کو دوسروں سے برتر سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر شعبہ میں سفید فام باشندوں (گوری چمڑی والوں) کی برتری رہے۔ اس کے سوشل میڈیا صفحات سے بظاہر یہی لگتا ہے کہ جن کی جلد سفید ہو یعنی گورے ہوں اس کے خیال میں وہی لوگ اعلیٰ نسل کے ہوتے ہیں۔ اس کا ایقان ہے کہ سیاہ فام، براون (بھوری جلد)، زعفرانی یا پھر ملے جلے رنگ کی حامل جلد کے لوگوں پر سفید فام باشندوں کو ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے۔ جہاں تک سفید فام باشندوں کو دوسری رنگ و نسل کے لوگوں پر برتری حاصل ہونے سے متعلق نظریہ کا سوال ہے اس کی کوئی سائنٹفک، ارتقائی، حیاتیاتی، تشریحی، تجرباتی یا معقولیت پر مبنی وضاحت پیش نہیں کی جاسکتی۔ باالفاظ دیگر اسی قسم کی تھیوری کی سپورٹ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ سفید فام باشندے، زندگی کے کسی بھی شعبہ میں دوسرے رنگ ونسل کے لوگوں پر برتری رکھتے ہوں۔ اس ضمن میں ہمارے پاس کئی مثالیں ہیں۔ اگر ہم دنیا کے بہترین ایتھلیٹس کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بہترین ایتھلیٹس سیاہ فام باشندوں میں پائے جاتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی بینک سفید فام باشندوں کی نہیں بلکہ چینی باشندوں کی ہے۔ اس طرح دنیا کی سب سے بڑی آئیل کمپنی عربوں کی ملکیت میں ہے۔ سفید فام باشندوں کی نہیں۔ دوسری طرف روئی، دودھ کی پیداوار اور سب سے زیادہ فلموں کی تیاری میں ہندوستانی آگے ہیں سفید فام باشندے نہیں۔
جہاں تک برتری تسلط اور اجارہ داری کا سوال ہے یہ کوئی نئی کیفیت یا رجحان نہیں۔ مثال کے طور پر نازی سفید فام جرمن باشندوں کو سب سے برتر، سب سے اعلیٰ نسل تصور کرتے تھے۔ ان کی نظروں میں دوسری نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں بالخصوص سلاوی، رومی، یہودی اور دیگر نسلی گروپس کمتر تھے یعنی نازیوں کے سامنے ان کی کوئی وقت کوئی اہمیت نہیں تھی۔ فاشسٹ عناصر الٹرانیشنل ازم میں یقین رکھتے تھے لیکن گذرتے وقت کے ساتھ ان طاقتوں نے نسلی نظریات کو جذب کرنا شروع کردیا اور پھر یہود دشمن بن گئے۔ تاہم نازیوں اور فاشسٹ طاقتوں کو دوسری جنگ عظیم میں کئی رنگ و نسل پر مشتمل فورسس کے ہاتھوں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر دیکھا جائے تو برتری صرف نسلی بالادستی کے اطراف ہی نہیں گھومتی یا پھر جلد کے سفید رنگ کے اطراف ہی نہیں گھومتی، دنیا میں مذہبی برتری، ذات پات کی برتری، زبانوں کی برتری غرض کئی قسم کی برتری پائی جاتی ہے۔ ہندوستان میں تو بالادستی و ذیلی بالادستی یا برتری کے کئی اقسام سے متعلق نظریات پائے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ذات پات اور ذیلی ذاتوں کی درجہ بندی پائی جاتی ہے۔ ذات پات پر مبنی بالادستی ہمارے ملک میں صدیوں سے موجود ہے۔ بسویشورا جیوتی یا پھولے، نارائنا گرو، ای وی آر، پیریار، راما سوامی، بابا صاحب امبیڈکر اور دوسرے سماجی مصلح منظر عام پر آئے اور ذات پات پر مبنی امتیاز و تعصب اور جانبداری کے خلاف بے تکان مہم چلائی۔ ان کی لاکھ کوششوں کے باوجود آج بھی ہندوستان ذات پات پر مبنی امتیاز اور اس کی برائی کی گرفت میں ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سناتنا دھرم کے ماننے والوں کے باعث ہی مذہبی برتری و بالادستی کو ایک نئی زندگی ملی۔ اس کا کریڈٹ سناتن دھرم کے ساتھ ساتھ آر ایس ایس، بی جے پی اور ہندوتوا کی دوسری تنظیموں کو جاتا ہے۔ تاہم مرکز میں نریندر مودی حکومت کے منظر عام پر آنے تک انڈین اسٹیٹ، بڑی حد تک سیکولر رہی۔ پنڈت جواہر لال نہرو ایک ایسے برہمن خاندان میں پیدا ہوئے جہاں مردوں کی اجارہ داری تھی وہ نہ صرف ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے بلکہ انہوں نے پوری شدت پوری قوت کے ساتھ سیکولرازم کو پھیلایا۔ قوم کو اس کی اہمیت و افادیت سے واقف کروانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی پیدائش ایک دلت خاندان میں ہوئی۔ انہوں نے ایک ایسا دستور بنایا جس میں ببانگ دہل یہ اعلان کیا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور رہے گا۔ ہمارے ملک کے دستور کا شمار دنیا کے بہتر دستوروں میں ہوتا ہے۔ ہندوستان کے دستور نے ملک کی اکثریت یعنی ہندوؤں کے امکانی تسلط کے برتری و اجارہ داری کے خلاف اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست اور مذہبی ادارے تقریباً 60 برسوں تک علیحدہ علیحدہ رہے۔ اگرچہ مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، جینوں، بدھسٹوں، پارسیوں، یہودیوں اور لادینی عناصر (ایسے لوگ جو کسی مذہب کو نہیں مانتے) کو سماجی زندگی میں امتیازی سلوک سے متاثر ہونا پڑا لیکن ان تمام نے ریاست کی طاقت اور اس کے اقتدار کے خلاف خود کو محفوظ محسوس کیا۔ ریاست نے مذہبی اقلیتوں کے تئیں امتیازی سلوک روا نہیں رکھا اور جب کبھی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ امتیاز برتے جانے کے واقعات پیش آئے تب ججس نے آگے بڑھ کر ریاست کے اقدامات کو کالعدم اور سیکولرازم کو برقرار رکھا۔ ہمارے ملک میں ہندو اگرچہ اکثریت میں ہیں اس کے باوجود اکثر ہندو مذہبی تنوع کا احترام کرتے ہیں، لیکن اب موجودہ حالات میں ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام چہزیں ماضی کی یادیں بن کر رہ گئی ہیں سیکولرازم کا لفظ فی الوقت ایک بدنام لفظ بن گیا ہے۔ اس طرح کی حرکت کا آغاز کسی اور نے نہیں بلکہ ہمارے عزت مآب وزیر اعظم نے شروع کیا اور جہاں جہاں انہوں نے خطاب کیا اس کا اختتام ’’جئے بجرنگ بلی‘‘ کے نعرے سے کیا۔ بی جے پی کی انتخابی مہم نے اس وقت ایک خطرناک موڑ اختیار کیا ۔ اس کے قائدین نے رائے دہندوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے سے پہلے ’’جئے بجرنگ بلی‘‘ کا نعرہ لگائیں۔ اس طرح کی اپیل انتخابی قوانین اور اس کے رہنمایانہ خطوط کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ الیکن کمیشن آف انڈیا نے اس سنگین خلاف ورزی کا کوئی نوٹ نہیں لیا۔ آپ کو بتادیں کہ کرناٹک میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 12.92 فیصد، عیسائیوں کی آبادی 1.87 فیصد ہے۔ بی جے پی مسلمانوں کو بری طرح نظرانداز کردیا۔ اس نے 224 اسمبلی حلقوں میں سے کسی میں بھی مسلم اور عیسائی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا۔ بی جے پی قائدین نے برسر عام کہا کہ انہیں مسلمانوں سے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو بی جے پی نے ’’غیر ہندوؤں سے نفرت اور ہندو کو ووٹ‘‘ جیسے نظریہ اور عنوان پر مہم چلائی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 13 مئی کو جو نتیجہ آئے گا اتوار کے کالم میں آپ کو اس کا پتہ چل جائے گا اور معلوم ہوجائے گاکہ ہمارا مستقبل کیا ہے۔