نصیر الدین شاہ کو غصہ کیوں آتا ہے؟

   

رام پنیانی
جمہوری سماج کی صحت کا اشاریہ اقلیتوں میں سلامتی کے احساس سے معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی سوسائٹی میں جمہوریت کی سطح کی عکاسی اُس سماج میں ’آزادیٔ اظہار خیال‘ کی سطح سے ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں اشاریے گزشتہ چند سال کے دوران انحطاط سے دوچار ہورہے ہیں۔ ایسے تاثرات ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کو دوسری درجہ کی شہریت تک گھٹایا جارہا ہے۔ خاص طور پر ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف عیسائی گزشتہ چند برسوں کے دوران زیادہ غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں۔ ویسے اس سے قبل بھی ایسا نہیں کہ ان اقلیتوں کیلئے حالات بہت اچھے تھے۔ ’مذہبی اقلیتوں کی سلامتی‘ اور ’آزادیٔ اظہار خیال‘ کے احساس کو کئی دہوں سے مسلسل دبایا جاتا رہا ہے، لیکن اس کا نقطہ عروج مرکز میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے برسراقتدار آنے کے بعد سے دیکھا جارہا ہے۔ اس طرح یہ دونوں باتیں یعنی اقلیتوں کی سکیورٹی اور اظہار خیال کی آزادی اکثر حالات میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔یہ حقیقت پھر ایک بار اُبھر آئی جب ہندوستانی سنیما کے لجنڈز میں شامل نصیرالدین شاہ نے بلندشہر، یو پی میں گائے سے متعلق تشدد میں سبودھ سنگھ کے قتل کے پس منظر میں اپنی دلی کیفیت بیان کی۔ وہ ’کاروانِ محبت‘ سے بات کررہے تھے۔ یہ گروپ نفرت کے بڑھتے جرائم پر انتھک جہدکار ہرش میندر کی قیادت میں انسانیت نواز آسرا کی طرح کام کرتا آرہا ہے۔ اس گروپ نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے نفرت کے جرائم کے متاثرین کی فیملیوں کے پاس جاکر ان سے اظہار یگانگت کیا، اپنے عزیز کو کھودینے سے اُن کو لگے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی ہے۔ یہ غیرمعمولی خیرسگالی ہماری متنوع سوسائٹی کے ارکان کیلئے ہمدری اور محبت سے بھرپور ہے۔

نصیرالدین شاہ نے ’کاروانِ محبت‘ سے بات چیت میں کہا کہ ’’کئی علاقوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک گائے کی موت کی کسی پولیس آفیسر کی ہلاکت سے کہیں زیادہ اہمیت ہے۔ مجھے میرے بچوں کے تعلق سے سوچتے ہوئے اضطراب کا احساس ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کوئی مذہبی وابستگی سے عاری ہیں … کل اگر کوئی ہجوم انھیں آگھیرے اور پوچھے ’کیا تم ہندو ہو یا مسلمان؟‘ اُن کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ اس پر مجھے فکر ہوتی ہے کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ صورتحال مستقبل قریب میں سدھرنے والی ہے۔ ایسے معاملے مجھے خوفزدہ نہیں کرتے، وہ مجھے غصہ دلاتے ہیں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سماج میں جس طرح نفرت پھیلا دیا گیا ہے وہ کسی جن کی مانند ہے جسے بوتل سے نکال دیا گیا اور اب اسے دوبارہ اس میں بند کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ انھوں نے یہ تاثر ظاہر کیا کہ لوگوں کی ہمت بڑھ گئی ہے کہ وہ اسلحہ اٹھاکر تشدد برپا کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح بچ سکتے ہیں۔کوئی بھی سماج میں جہاں محبت اور بھائی چارہ کو اُصول سمجھا جائے ، ایک شہری کی طرف سے اس طرح کے بیان پر سوسائٹی کو خوداحتسابی پر مجبور کرتی۔ ہماری بعض ترقی پسند تنظیموں جیسے پروگریسیو رائٹرز اسوسی ایشن نے آگے آتے ہوئے ایک بیان میں نصیرالدین شاہ کے ساتھ یگانگت کا اظہار کیا ہے۔ بعض دیگر جیسے اشوتوش رانا نے اُن کی برہمی پر اتفاق کیا، لیکن زیادہ بڑا گوشہ اُن پر بپھر گیا۔ کئی فلموں میں اُن کے ساتھ کام کرچکے انوپم کھیر نے اُن کا مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا کہ آرمی پر پتھراؤ کی آزادی ہے اور اعلیٰ ملٹری آفیسروں کے تعلق سے بدگوئی کی آزادی ہے، تو شاہ کو مزید کتنی آزادی چاہئے؟ مودی حکومت میں کابینی وزیر اوما بھارتی نے کہا کہ شاہ جیسے لوگ انتشارپسند سیاست کی سازش کا حصہ ہیں۔ بابا رام دیو جو بابا کے ساتھ ساتھ بڑے بزنسمین ہیں، انھوں نے نصیرالدین شاہ کو قوم دشمن قرار دیا اور بعض دیگر نے یہ تک کہا کہ وہ ملک چھوڑ کر وہیں چلے جائیں جہاں وہ سلامتی محسوس کریں! یو پی اسٹیٹ بی جے پی چیف نے شاہ کو پاکستانی ایجنٹ قرار دیا۔ ان سب سے کو یکجا کرنے والے اقدام میں شاہ کو اجمیر لٹریری فیسٹیول میں ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں تقریر کرنے سے روک دیا گیا۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی مسلم ایکٹر کے ساتھ اس قدر ذلالت کا برتاؤ کیا گیا۔ ہمیں یاد ہے کہ جب شاہ رخ خان نے 2015ء میں سوسائٹی میں بڑھتی عدم رواداری پر تبصرہ کیا تھا تو ان کا پاکستان کے حافظ سعید کے ساتھ تقابل کیا گیا۔ اگلے سال بڑھتی عدم رواداری کے سبب بڑی تعداد میں ممتاز شخصیتیں اپنے نیشنل ایوارڈز واپس کررہے تھے، عامر خان نے اپنی بیوی کرن راؤ کے اپنے بچہ کے تعلق سے اندیشوں کا تذکرہ کیا۔ ان کو اسی طرح تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا۔

گزشتہ چند سال کے دوران آخر کیا ہورہا ہے؟ یہ سچ ہے کہ مابعد گودھرا گجرات یا کندھامل 2008ء یا مظفرنگر 2013ء کی شدت کا کوئی تشدد پیش نہیں آیا ہے۔ یہ ہورہا ہے کہ بار بار پیش آنے والا تشدد مخصوص قوم سے جڑتا جارہا ہے اور ہولناک نوعیت کے بعض گھناؤنے واقعات منظرعام پر آرہے ہیں۔ یہ مسلم کمیونٹی کو خائف کرتے ہیں۔ حملے اور عیسائیوں کے دعائیہ اجتماعات میں خلل اندازی انھیں اس طرح غیرمحفوظ کررہے ہیں جیسے کبھی نہیں ہوا۔ گائے سے متعلق تشدد کا مسئلہ جو محمد اخلاق سے شروع ہوا، پھر جنید اور راکبر خان و دیگر اس کے شکار ہوئے، اس نے واضح کیا ہے کہ غذائی عادتیں فرقہ پرستانہ سیاست کے کارندوں کی مرضی سے طے کی جائیں گی۔ مزید بری بات یہ ہے کہ ایسے تشدد کے ملزمین کو برسراقتدار عناصر نے شاباشی دی ہے جیسے مرکزی وزراء مہیش شرما نے اخلاق کیس کے ملزم کی نعش کو ترنگے میں لپیٹا اور جینت سنہا نے لنچنگ کیس کے ملزم کو تہنیت پیش کی۔ راجستھان میں افروزل کے خلاف شمبھولال ریگر کے لو جہاد سے متعلق تشدد نے ظاہر کیا کہ انسانیت کس حد تک پست ہوسکتی ہے۔ ریگر نے نہ صرف افروزل کو ہولناک انداز میں قتل کیا بلکہ اپنے بھانجہ کے ذریعے اس گھناؤنے جرم کا ویڈیو بھی تیار کرایا۔ اور تو اور ریگر کو شاباشی دینے کیلئے ایک کمیٹی قائم کی گئی۔
انتشار پسند سیاست کیا ہے جس کا نصیرالدین شاہ کو اوما بھارتی جیسے ذمہ دار شخصیتیں موردِ الزام ٹھہرا رہی ہیں۔ انتشار یا تقسیم کیا ہے: فرقہ پرستانہ مسائل اُٹھانا جیسے رام مندر، مقدس گائے یا انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی روشنی میں کسی کا اندیشے ظاہر کرنا؟ شاہ کو جو چیز نے ضرور تکلیف پہنچائی وہ یہ رہی کہ پولیس آفیسر کے قتل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گائے کی ہلاکت کو اہمیت دی گئی۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہجوموں کی ہمت بڑھ گئی اور اُن کے ذہن نفرت کے نظریہ اور مذہبی اقلیتوں کے تئیں نفرت سے پراگندہ ہیں۔ نصیرالدین شاہ کا غصہ ہمارے سماج کے جمہوری جذبہ کو جھنجھوڑنا چاہئے تاکہ نفرت کے جن کو واپس بوتل میں بند کیا جاسکے، اور اس بوتل کو ہمیشہ کیلئے سماج سے دور کردینے کی ضرورت ہے۔
ram.puniyani@gmail.com