نفس پر حکومت

   

ابوزہیر سید زبیر ہاشمی نظامی
بچوں کو اوائل عمر ہی میں سکھا دینا چاہئے کہ صبر و تحمل اور برداشت کی عادت اپنائیں۔ ان کو ذہن نشین کرادینا چاہئے کہ بداخلاقی، بدخیالی، مسموم سوچ اور تند مزاجی نہ صرف اخلاق کو تباہ کرتی ہیں، بلکہ صحت کو بھی تباہ کردیتی ہیں۔ ضبط نفس ہر برائی سے روکتا اور ہر ناکامی سے محفوظ رکھتا ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفے ﷺکا فرمان ہے کہ ’’غصہ دہکتی ہوئیآگ ہے، جو اسے ضبط کرتا ہے محفوظ رہتا ہے اور جو اسے برداشت نہیں کرسکتا، اس کی آگ میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے‘‘۔کون ماں ہے جو اپنے بچے پر حکومت کرنے کی خواہش نہیں رکھتی، جب کہ وہ خود اپنے نفس پر قادر نہیں ہے۔ گھر کی حکومت گھر ہی سے شروع ہونی چاہئے اور جس کا آغاز ماں کی گود سے ہونا چاہئے۔ ماں کو چاہئے کہ خود پر قابو پانا سیکھے اور اپنے جذبات پر کنٹرول کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اُسے سمجھ لینا چاہئے کہ بچوں کے جذبات کو زیر کرنے کی تمام کوشش رائیگاں جائے گی۔جو شخص اپنے نفس پر حکومت کرتا ہے، جذبات، خواہشات اور خطرات کو دبا دیتا ہے، وہ شخص بادشاہ سے بڑھ کر ہے۔ ضبط نفس کے بغیر آپ کو کامیابی کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ ماناکہ آپ بہت ذہین ہیں، اعلی تعلیم یافتہ ہیں، صحت مند ہیں، لیکن اگر آپ کو اپنے آپ پر قدرت نہیں تو کامیابی محض خود فریبی اور خود فہمی ہے۔ اس سلسلے میں ایف اے شاہ نے کیا خوب لکھا ہے: ’’ اوروں کو خونریز جنگوں کا حال لکھنے دو، جن میں فاتح کو عزت اور مفتوح کو ذلت نصیب ہوتی ہے، لیکن میں تو ایسے شخص کا حال لکھوں گا، جو اپنے گناہوں کے خلاف جنگ و جدل کرکے انھیں مغلوب کرتا ہے۔ جو سالہا سال تک اپنے نفس کے خلاف جنگ کرکے فتح حاصل کرتا ہے۔ وہ شخص بہت بڑا ہے، اسے شاباشی دینی چاہئے۔ اس نے اپنے وطن اور وطن سے باہر بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں، لیکن سب سے بڑی جنگ جس میں یہ شامل ہوا، وہ تھی جس میں گناہ کی فوج کے ساتھ نبرد آزما ہوکر اپنے نفس پر غلبہ پایا۔ جو انسان اپنے نفس پر فتح پاتا ہے، وہی بہادر کہلانے کا مستحق ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کا نام فراموش کردیا جائے، اس کے ساتھی اسے بھول جائیں، لیکن احتیاط اور اشکوں کا جو بیج اس نے بویا ہے، اس سے غیر فانی برسوں میں ایک سدابہار فصل پیدا ہوگی!‘‘۔مکمل ضبط نفس کے معنی یہ ہیں کہ اپنے نفس پر ایسا ضبط ہو جیسا کہ رابرٹ انیز ورتھ لغات نویس کو تھا۔ یہ شخص غیر معمولی قوت برداشت کا مالک تھا، اس کی زندگی کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ اس کی بیوی نے غصہ کے جوش میں اس کی ضخیم قلمی لغت کو آگ میں پھینک دیا۔ یہ اس کی برسوں کی محنت کا نتیجہ تھی۔ مگر اس شخص نے اپنی بیوی سے ایک لفظ تک نہیں کہا، خاموشی سے جاکر اپنے لکھنے کی میز پر بیٹھ گیا اور از سرنو کام شروع کردیا۔