نواب واجد علی خاں مرحوم سابق ایس پی کی یاد میں

   

محمد ریاض احمد

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
خالق کائنات کا اپنے بندوں کیلئے اگر کوئی بہترین تحفہ ہے تو وہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قدرت کا اگر کوئی حسین تحفہ ہے تو وہ ماں باپ ہیں۔ والدین وہ عظیم ہستیاں ہیں جو خود کو مٹاکر اپنی اولاد کی بقاء کو یقینی بناتے ہیں، اپنی میٹھی میٹھی نیند کی قربانی دے کر رات رات بھر اولاد کیلئے جاگتے ہیں، حوادثِ زمانہ، آفات و مصائب درد و تکلیف سے اپنے بچوں کو بچانے کی خاطر خود کو مشکلات کے سامنے کردیتے ہیں تاکہ اولاد کو کسی تکلیف ،کسی غم ،کسی رنج و الم ،کسی کمی، کسی بے بسی کا احساس نہ ہونے پائے۔ والدین وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو اپنی اولاد کو شیرخواری میں سینے سے لگائے رکھتی ہیں۔ انہیں رینگنے چلنے پھرنے کے قابل بنانے کیلئے خود رینگنے، چلنے، پھرنے گرنے لگتی ہیں اور پھر ایک ایسا لمحہ بھی آتا ہے جب ماں باپ اپنے بچوں کے ہاتھوں میں ممتا اور محبت کی اُنگلی دیئے انہیں سکھاتے ہیں کہ اس زمین پر قدم کیسے رکھے جاتے ہیں اور ان قدموں کو کیسے آگے بڑھایا جاتا ہے۔ ماں باپ ہی اپنے منہ کا نوالہ اپنی اولاد کے منہ میں ڈال کر انہیں مضبوط و طاقتور بناتے ہیں۔ ان کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو ایک مکمل شکل دیتے ہیں۔ انہیں زندگی کا سلیقہ طریقہ سکھاتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ زندگی میں کامیاب رہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر ماں باپ دین و دنیا کے امتحان کیلئے اپنے بچوں کو تیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ نواب واجد علی خاں اور ان کی اہلیہ قیصر بیگم مرحومہ کی یاد میں ان کے بیٹے بیٹیوں نے کے ڈبلیو فاؤنڈیشن اینڈ ٹرسٹ قائم کیا ہے جس کا مقصد مختلف شعبوں بالخصوص محکمہ پولیس میں نمایاں خدمات انجام دیتے اور فرائض کی انجام دہی میں دیانت داری کا مظاہرہ کرنے والوں کو ایوارڈس عطا کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ واضح رہے کہ نواب واجد علی خاں کی پیدائش حیدرآباد کے ایک معزز خاندان میں 30 اکتوبر 1929ء کو ہوئی۔ کمسنی میں ہی وہ یتیم ہوگئے تھے لیکن بچپن سے ہی ان کے عزائم بلند تھے چنانچہ انہوں نے تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ گوشہ محل ہائی اسکول سے دسویں کا امتحان کامیاب کیا اور سٹی کالج سے گریجویشن کی تکمیل کی۔ 1951ء میں سب انسپکٹر کی حیثیت سے محکمہ میں شمولیت اختیار کی اور ایس پی میدک کی حیثیت سے 1987ء میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے اور 36 سالہ دور ملازمت میں انہوں نے شجاعت و بہادری، پیشہ ورانہ مہارت، انسانیت و ہمدردی کے ساتھ ساتھ دیانت داری و فرض شناسی کا غیرمعمولی مظاہرہ کیا۔ محبوب نگر اور میدک میں غیرمعمولی خدمات کے باعث عوام انہیں
Aggi Ramudu
کے لقب سے پکارا کرتے تھے۔ خاص طور پر ان کی مونچھ ایک طرح سے ان کی پہچان بن گئی تھی۔ 1964ء میں نواب واجد علی خاں کو فارنسک اینڈ فنگر پرنٹ کے شعبہ میں تربیت کیلئے کلکتہ روانہ کیا گیا اور ٹریننگ کے بعد بیسٹ آفیسر کا ایوارڈ عطا کیا گیا۔
مہاراشٹرا کو فائن رائس کی اسمگلنگ کا معمہ جو کئی دہوں سے پولیس کیلئے درد سر بنا رہا۔ انہوں نے مختصر سے عرصہ میں حل کرکے اسمگلنگ میں ملوث ٹولی کو گرفتار کیا۔ نواب واجد علی خاں ایک سکھ کے بھیس میں اور ٹیلیفون ڈپارٹمنٹ کی گاڑی استعمال کرکے کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس دوران ان کے ایک بازو میں گولی بھی لگی تھی چنانچہ 1973ء میں ان کی غیرمعمولی خدمات ان کے اعتراف میں نواب واجد علی خاں کو یوم جمہوریہ کے موقع پر پریسیڈنٹ پولیس میڈل سے نوازا گیا۔سی بی سی آئی ڈی میں بھی خدمات انجام دے کر بے شمار کیس حل کئے جس میں کرمچڈو کیس نمایاں ہے۔ 36 برسوں کے دوران نواب واجد علی خاں نے قتل کے تقریباً 200 کیس حل کئے۔ انہوں نے اپنی دیانت داری اور پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعہ عوام میں محکمہ پولیس کی شبیہ بہتر بنائی۔ نواب واجد علی خاں کے فرزند انجینئر امیر محمد علی خاں کے ڈبلیو فاؤنڈیشن اینڈ ٹرسٹ کے صدر ہیں۔ ان کے بچوں ڈاکٹر شہیرہ فاطمہ شیخ، شاہینہ خاں علی کریمنل ڈیفنس اٹارنی، انجینئر محمد شہوار علی خاں (ایم ایس ۔ پی ای )اور محمد شاہ زیب علی خاں بھی امریکہ میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 21 ڈسمبر کو حیدرآباد میں کے ڈبلیو فاؤنڈیشن اینڈ ٹرسٹ کی 20 ویں ایوارڈ تقریب منعقد کی جارہی ہے۔ ڈائریکٹر ایڈوائزری کمیٹی ایس حسینی قادر پیر کے مطابق وزیر داخلہ محمد محمود علی مہمان خصوصی ہوں گے۔ کمشنر پولیس حیدرآباد انجنی کمار مہمان اعزاز کی حیثیت سے شرکت کریں گے اور محکمہ پولیس اور دیگر شعبوں سے وابستہ ممتاز شخصیتوں کو ایوارڈس عطا کریں گے۔ صدارت انجینئر امیر محمد علی خاں اور نگرانی حسینی قادر پیر کریں گے ۔