’’ والدین کے ساتھ تم نے جو کیاوہ تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے‘‘

   

محمد اسد علی ایڈوکیٹ
ہندوستان میں مشترکہ خاندان کا برسوں سے رواج رہا ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ بزرگوں کی خدمت اور ان کے ساتھ قیام کرنے پر زور دیا جاتا رہا۔ لیکن موجودہ دور میں بدلتے ہوئے فیشن سے متاثر ہونے والے خاندان(Newclear) خاندان کو ترجیح دے رہے ہیں جس میں شوہر، بیوی اور بچے شامل ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خاندان کے بزرگوں کو ضعیفی کی عمر میں بڑی بے رحمی سے نکال دیا جاتا ہے جبکہ انہیں اس عمر میں دیکھ بھال کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب کی اس لعنت سے تقریباً خاندان متاثر ہیں جہاں بدنصیب اور نالائق اولادیں اپنے بزرگوں کو بوجھ سمجھ کر گھر سے نکال دیتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو والدین ان کی پرورش اور تعلیم کا انتظام کرتے ہیں یہ بدنصیب اولادیں ان کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے پیر پر کھڑے ہونے کے بعد بیویوں کی ترغیب اور ان کی سکاوٹ کے علاوہ اپنی بدفطرتی کی وجہ سے ماں باپ کو بوجھ سمجھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں جبکہ اسلام میں’ ماں‘ کو جنت کے تین دروازے اور’ باپ‘ کو جنت کا ایک دروازہ قرار دیا ہے لیکن مغربی تہذیب اور پیسوں کی چمک دمک کی وجہ سے ان باتوں پر توجہ نہیں دیتے ہیں اور بیوی کے کہنے پر والدین کو جو ضعیف ہوتے ہیں ان سے علحدگی اختیار کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ بھی پیرانہ سالی سے گذریں گے اور اس قسم کے حالات جو خود ان کے پیدا کردہ ہوتے ہیں وہ بھی انتہائی سنگین اور مہلک ترین نتائج سے گذریں گے۔ آج کل لو میاریج ( محبت کی شادی ) کا عام رواج ہوگیا ہے۔ بعض اوقات ایسی شادیاں کامیاب بھی ہورہی ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لڑکے یا لڑکیوں کے متعلقین رشتہ کی مخالفت کرتے ہیں اور بعض لڑکے و لڑکیاں شادی کے معاملے میں جذباتی ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے والدین کو اپنی پسند کے مطابق شادی کروانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ والدین یا بزرگوں کی خواہشات اور ان کی پسند کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جس سے متعلقین کو سخت صدمہ پہونچتا ہے۔
حال ہی میں کرناٹک ہائی کورٹ نے اس سلسلہ میں اپنی مرضی سے شادی کرتے ہوئے والدین کو نظرانداز کرنے والی لڑکی کو کرناٹک ہائی کورٹ نے نصیحتاً انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’والدین کے ساتھ تم نے جو کیا وہ تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے‘‘ ۔ ہائی کورٹ میں باپ کی جانب سے درخواست داخل کی گئی تھی، درخواست گذار نے اپنی لڑکی کے لاپتہ ہونے کا ذکر کیا تھا۔ عدالت نے باپ کی درخواست قبول کرلی اور اس دوران لڑکی نے عدالت میں حاضر ہوکر اپنی محبت کی داستان سنائی۔ لڑکی کے باپ نے ڈرائیور پر لڑکی کو جبراً ساتھ لے جانے کا الزام لگایا تھا اور باپ کی اس درخواست پر لڑکی نے بھری عدالت میں باپ کی شکایت پر سوال اٹھایا، اور باپ کی درخواست کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود اپنی مرضی سے گئی تھی اور اس نے اپنی پسند اور مرضی سے ڈرائیور کے ساتھ شادی کرلی ہے۔ لڑکی نے اپنے بالغ ہونے کے دلائل بھی عدالت میں پیش کئے۔ سماعت کے بعد عدالت نے اس لڑکی کو نصیحت بھی کی اور انتباہ بھی دیا اور تاریخی جملہ دہراتے ہوئے کہا کہ ’’والدین کے ساتھ تم نے جو کیا وہ تمہارے ساتھ بھی ہوسکتا ہے‘‘ ۔ لڑکی جو عدالت میں اپنے عاشق شوہر کے ساتھ حاضر ہوئی تھی‘ لڑکی انجینئرنگ کی طالبہ ہے جبکہ اس کا عاشق شوہر ڈرائیور ہے۔ لڑکی کو محنت و مشقت سے پڑھانے والے والدین کو خود اپنی بیٹی کے بیان سے عدالت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا اور ان حالات کو دیکھتے ہوئے کرناٹک ہائی کورٹ نے یہ جملہ کہا ’’ محبت اور عاشقی میں لڑکیوں کو نہ ہی اپنے عصمت کا خیال ہے اور نہ ہی والدین کی عزت کا کوئی احترام ، محبت میں اندھی بن کر وہ اپنے اور اپنے خاندان کیلئے رسوائی کا سب بن رہی ہیں۔‘‘
حدیث شریف میں آیا ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی ؓ حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ میرا دل بہت چاہتا ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور جہاد سے میرا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائے اور اس پر مجھے اجر و ثواب ملے، صرف اسی غرض کیلئے جہاد میں جانا چاہتا ہوں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے والدین زندہ ہیں۔ ……… آپؐ نے فرمایا کہ جاؤ اور جاکر ان کی خدمت کرو اس سے تمہیں جو اجر حاصل ہوگا وہ اجر جہاد سے بھی حاصل نہیں ہوگا۔ ( صحیح بخاری )
حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ہیں اور وہ مسلمان ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر آپؐ کی زیارت کریں لیکن حضرت اویس قرنی ؓ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں لیکن میری والدہ بیمار ہے اور ان کو میری خدمت کی ضرورت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حاضر ہونے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ تم یہاں میری زیارت و ملاقات کے لئے مت آؤ بلکہ والدہ کی خدمت کرو۔ ( صحیح مسلم )( کتاب الفضائل )
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ موجودہ دور میں والدین اپنی بیٹیوں کو دین کی تعلیم کے بجائے دنیاوی تعلیم دلوانے کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ دین کہتا ہے کہ عورت کو اس کی دینداری کی وجہ سے پسند کرو، دین کی تعلیم اور دنیاوی تعلیم میں بہت بڑا فرق ہے جبکہ دیندار عورت کی معاشرہ میں ایک پہچان اور شان ہوتی ہے اور وہ ملنسار خوش اخلاق ، باادب ہوتی ہے اور اپنے گھر کا کام کاج سلیقہ سے کرلیتی ہے ، اپنی اولاد کو آخرت کی بھی تیاری کرواتی ہے۔ شوہر کی فرمانبردار ہوتی ہے اور شوہر کی لائی ہوئی چیز کو پسند کرتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ دور میں تعلیم کو تجارت بنادیا گیا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض لڑکے ، لڑکیاں بڑے بڑے نام نہاد کالجس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن ان میں ادب و اخلاق کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف دینی تعلیم سے محروم ہیں بلکہ اپنے والدین کی خدمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ آج کل لومیاریج کا رواج عام ہوگیا ہے بعض لڑکے و لڑکیاں لو میاریج کوترجیح دے رہے ہیں لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض خواتین جو پڑھی لکھی ہیں غیر مَحرم کے کے ساتھ بیٹھ کر ملازمت کرتی ہیں اور ان کی ساری توجہ صرف ملازمت پر ہوتی ہے۔ شریعت کے مطابق کسی بھی مسلمان عورت کا غیر مَحرموں کے ساتھ بیٹھ کر کام کرنا حرام ہے البتہ خاوند کی اجازت اور رضا و رغبت سے خواتین کے شعبہ میں ملازمت کرسکتی ہیں اگرچیکہ آمد و رفت کی باوقات سہولت موجود ہو۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کئی خواتین کو اس لئے بھی طلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کی ملازمت (Job) ان سے خدمت گذاری، اطاعت و فرمانبرداری کا جذبہ چھین لتی ہے۔ موجودہ دور میں خواتین جو پڑھی لکھی ہیں طلاق تک نوبت پہونچنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کی ساری توجہ (Job) پر ہوتی ہے جس سے ان کی ازدواجی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ کئی طلاقیں ہوچکی ہیں اور کئی گھرانوں کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں اور بے شمار خاندان صرف صلح اور طلاق کے معاملہ میں دن رات پریشان ہیں۔
شادی شدہ خواتین کو یہ حقیقت اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ ان کی زندگی کا مقصد ملازمت (Job) نہیں ہے بلکہ وہ نکاح کے بعد شوہر کیلئے بہترین خزانہ ہے۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ قرار دیا اور اسے معاشی ذمہ داریوں سے بری الذمہ قرار دیا ہے اور معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد پر ڈالا ہے۔ آج کے دور میں ہر چمکتی چیز سونا لگتی ہے، صحیح اور غلط کی پہچان بہت مشکل ہوچکی ہے۔ اس سلسلہ میں رشتہ طئے کرنے سے قبل اہم بات یہ ہے کہ دینداری پر توجہ دینا چاہیئے۔ رشتہ کی بات چیت کے دوران بزرگوں کی نگرانی میں لڑکا اور لڑکی سے اسلام میں نماز کی اہمیت اور اس سے متعلق بنیادی سوالات پوچھے جائیں، پھر آگے بڑھیں۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، سیدھی سیدھی بات کہو، تم جیسے ہو، جس حقیقت میں ہو صاف بیان کردو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ استعمال کرو اسی میں تمہاری کامیابی ہے۔ بلاتحقیق چمک دمک سے متاثر ہوکر نکاح کرنا اور بعد میں لڑائی جھگڑوں سے خاندان میں شرمندگی اور نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سے بچنے میں خیر ہی خیر ہے۔ مزید تفصیلات کیلئے فون نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔