وزیر داخلہ پر خوف پیدا کرنے کا الزام

   

لو وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بے ننگ و نام ہے
یہ جانتا اگر تو لُٹاتا نہ گھر کو میں
وزیر داخلہ پر خوف پیدا کرنے کا الزام
کانگریس نے وزیر داخلہ امیت شاہ پر ملک میں خوف و اندیشوں کا ماحول پیدا کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ حالانکہ اپوزیشن جماعتیں وقفہ وقفہ سے حکومتوں کے خلاف اس طرح کے الزامات عائد کرتی رہتی ہیں تاہم جہاں تک فی الحال کانگریس کی جانب سے عائد کردہ الزام کا سوال ہے اس پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح سے امیت شاہ بارہا اپنے انتخابی جلسوں میں این آرسی کو سارے ملک میں نافذ کرنے کی بات کر رہے ہیں اس سے یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ وہ ملک بھر میں اندیشوں اور خوف کاماحول ہی پیدا کر رہے ہیں۔ امیت شاہ صرف این آر سی نافذ کرنے کی بات نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کا جو لب و لہجہ ہے اورجس تیور کے ساتھ وہ اس بات کا اعلان کر رہے ہیں اور جس تواتر کے ساتھ اعلان کیا جا رہا ہے اس سے یہی پیام مل تا ہے کہ امیت شاہ اس اعلان کے ذریعہ جہاں آر ایس ایس کو خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں وہ مسلمانوں میں بطور خاص خوف و ہراس اور اندیشوں کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امیت شاہ کا جو انداز ہے وہ فرقہ پرستوں کو خوش کرنے والا ہے ۔ جو اندیشے اور سوال این آر سی اور سی اے اے کے تعلق سے پیدا عوام میں پیدا ہو رہے ہیں ان کو دور کرنے کی بجائے امیت شاہ کے تیور مزید سوالات کو ہوا دے رہے ہیں اورا ندیشوں کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ حکومت کا یہ تیور کسی بھی حال میں درست نہیں کہا جاسکتا اور نہ اس کا کوئی جواز ہوسکتا ہے ۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ کوئی بھی کام عوام کو اعتماد میں لے کر انجام دیں۔ عوام میں اپنے اقدامات کے تعلق سے شعور بیدار کیا جائے ۔ عوام کے اندیشوں کو ختم کیا جائے ۔ ان کے سوالات کے جواب دے کر انہیں مطمئن کیا جائے ۔ ایسا کرنے سے عوام میں حکومت کے تعلق سے ایک طرح کا اعتماد پیدا ہوتا ہے ۔ یہ اعتماد بھی صرف کسی مخصوص طبقہ میں نہیں بلکہ سارے مذاہب کے ماننے والوں میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن مرکزی حکومت ایک مخصوص طبقہ میں خوف اور اندیشے ہی پیدا کرنے میںمصروف ہوگئی ہے ۔ کانگریس نے شائد اسی بات کو اپنے الزام کی بنیاد اور وجہ بنایا ہے اور اس کو درست ہی کہا جاسکتا ہے ۔
ایک طرف امیت شاہ عوام میں خوف پیدا کرنے میں مصروف ہیں تو دوسرے گوشے بلکہ خود وزیر اعظم سی اے اے کے تعلق سے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سی اے اے کا کسی ہندوستانی پر اطلاق نہیں ہوگا ۔ یقینی طور پر نہیں ہوگا لیکن این آر سی کا اطلاق سارے عوام پر ہوگا ۔ سارے ہندوستانیوں پر ہوگا لیکن یہ بات نہ وزیر اعظم کر رہے ہیں اور نہ حکومت کے دوسرے نمائندوں کو اس کی کوئی توفیق ہو رہی ہے ۔ سبھی عوام کو محض سی اے اے کے تعلق سے تیقنات دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سی اے اے کی آڑ میں این آر سی کے تعلق سے جو حکومت کے منصوبے ہیں ان کو حکومت واضح نہیں کر رہی ہے ۔ جو گوشے ان اندیشوں کو زبان دینے کی کوشش کر رہے ہیں اورا س تعلق سے عوام میں شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے حکومت انہیں نشانہ بنا رہی ہے ۔ ان پر افواہیں پھیلانے اور عوام کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔ اس سے حکومت کے ایجنڈہ اور منصوبوں کے تعلق سے شبہات میں مزید تقویت پیدا ہو رہی ہے ۔ حکومت سی اے اے کی آڑ میں این آر سی کو پوشیدہ رکھی ہوئی ہے اور جب سی اے اے کا عمل پورا ہوجائیگا تو اچانک ہی این آر سی کا پٹارہ کھول دیا جائیگا اور اس وقت ہندوستانی عوام کے سامنے شائد احتجاج کرنے کا موقع بھی نہیں رہ جائیگا ۔ انہیں ایک ایسے ماحول میں گھیر لیا جائیگا جس میں ان کے سامنے سوائے اپنی شریت ثابت کرنے کے کوئی اور راستہ نہیں رہ جائے گا ۔ یہ حکومت کا ایجنڈہ ہے ۔
جہاں تک سی اے اے کے کسی ہندوستانی پر لاگو نہ ہونے کی بات ہے تو پھر مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ ہندوستانیوں کے تعلق سے قانون سازی کرے ۔ جو قانون ہندوستانیوں پر لاگو ہی نہیں ہوگا تو پھر اس کیلئے حکومت ہند کو ‘ جو صرف ہندوستانیوں کے ووٹوں سے منتخب ہوئی ہے ‘ اس قانون پر اصرار نہیں کرنا چاہئے ۔ ایسے قوانین کو فوری ترک کرنے کی ضرورت ہے جس کی مخالف ہندوستانی عوام کر رہے ہیں۔ اس قانون کے خلاف سارے ملک میں عوام اور خاص طور پر طلبا سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ مودی حکومت ‘ ہندوستان کی حکومت ہے اسے اپنے شہریوں کی فکر و تشویش کو پیش نظر رکھنا چاہئے ۔ دوسرے ملکوں کے عوام کی فکر کرنے کی مودی حکومت کو کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن اس کو مذہب سے جوڑ کر مودی حکومت ہندوستانی عوام کی تشویش کو خاطر میں لانے کو تیار نظر نہیں آتی جو افسوسناک ہے ۔