ویلنٹائن ڈے نئی نسل کو بے حیائی سے بچایا جائے

   

ابوزہیر
اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو پچھلے چند سال پہلے تک ۱۴؍ فبروری کی تاریخ آتی اور عام تاریخوں کی طرح آکر گذرجاتی ۔ ہمارے اسلاف نہ اس تاریخ کو ویلنٹائن ڈے ( یوم عاشقاں)کے نام سے جانتے اور نہ ہی کسی کے وہم و گمان میں تھا کہ آگے اس تاریخ کا اس انداز میں ذکر کیا جانے لگے گا۔ لیکن وقت نے ایسا پلٹی کھایا کہ ہم اغیار کے ساتھ ساتھ اب موجودہ زمانہ میں نہ صرف بڑے بڑے مقامات پر یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے} منایا جانے لگاہے ، بلکہ ہمارے ملک ہندوستان اور ہمارے شہر حیدرآباد میں بھی بڑے زور و شور سے یہ دن یوم عاشقاں کی حیثیت سے بڑی بے حیائی کے ساتھ منایا جارہا ہے۔
جب سے مغربی تہذیب نے مشرقی تہذیب کو اپنی آلودگی کا شکار کیا اور مشرق کا رخ کی تب سے بے ہودگی اور بے حیائی کا ایک سیلاب آگیا ہے اور فبروری کا مہینہ آتے ہی یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے} کی تیاری ہونے لگتی ہے۔
نسل نَو (نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ) مقصد حیات سے بے پرواہ ہوکر بے ہودگی و بے حیائی کے وہ کھیل کھیلتی ہے کہ جس سے شیطان بھی شرمندہ ہوجاتا ہے۔ پہلے تو بے حیائی کا یہ کھیل خاص طبقہ میں نظر آتا تھا مگر آہستہ آہستہ اس میں عام و خاص کی تمیز بھی ختم ہوگئی اور اکثر بلکہ ہر طبقہ کے کچھ افراد اس کی زد میں آگئے، ارے حد تو یہ ہوگئی ہے کہ ہمارے بعض نام نہاد افراد اور دنیوی تعلیمی اداروں میں بھی اس بے حیائی کا باقاعدہ سبق دیا جانے لگا ہے۔ممکن ہے

۱۴؍ فبروری کو آپ ہمارے شہر میں اس چیز کا نظارہ کریں گے۔
یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے} جسے ہم اپنی تہذیب کے منافی کہنے میں تھکتے نہیں، مگر اس کے باوجود ہمارے ہی علاقوں، محلوں اور کچھ گھروں میں اس دن کی تیاری کرتے ہوئے ہمارے نوجوان پائے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر مخصوص مقامات بھی متعین کئے جاتے ہیں اور اشتہارات کے ذریعہ لوگوں کو ایسی بے حیائی اور برائی کی طرف راغب کرایا جاتا ہے۔ اور آپس میں ایک دوسرے کو انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات پہونچاتے ہوئے اس بے حیائی کو آسانی کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے۔
یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے} کا نام لیکر کچھ اس طرح کے اشتہارات آتے ہیں کہ جس میں لوگوں کو ان کی اپنی خواہشات کے مطابق توجہ دلا کر راغب کرایا جاتاہے۔ تاکہ اس بے حیائی کی طرف آسانی کے ساتھ آجائیں۔
اس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ تہوار اور اس کو منانے والے جوڑوں کی خواہشات کیا ہیں۔ رقص و سرور میں محبت کا ’’اظہار‘‘ کیا گل کھلاتا ہے۔ اس کو ا صحاب عقل بہتر جانتے ہیں۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’ پاک دامن رہو ، تمہاری عورتیں پاک دامن رہیں گی، بیشک زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادائیگی تیرے گھر والوں سے ہوگی، اے شخص تو عقلمند ہے تو اس کو جان لے بس!۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ مقولہ دیوان امام شافعی میں اس طرح موجود ہے:
عفوا تعف نساوٴکم في المحرم وتجنبوا ما لا یلیق بمسلم
إن الزنا دین فإن أقرضتہ کان الوفا من أھل بیتک فاعلم
حدیث شریف سے بھی اس مضمون کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ معجم کبیر طبرانی میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک طویل روایت ہے جس میں نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ”عفوا تعف نساوٴکم“ ترجمہ: پاک دامن رہو تمھاری عورتیں پاک دامن رہیں گی۔ یہی حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے۔ اسی مضمون کو شعر میں بیان کیا ہے: إن الزنا دین فإن أقرضتہ کان الوفا من أھل بیتک فاعلم ”بیشک زنا قرض ہے، پس اگر تونے اسے لیا تو اسکی ادائیگی تمھارے گھروالوں سے ہوگی، پس تو جان لے“۔یعنی جو کسی کے ساتھ زنا کرتا ہے ، اس کے ساتھ زنا کیا جاتا ہے۔ جو کسی گھر (کی عورت ) کے ساتھ دو ہزار درہم میں زنا کرتا ہے تو اس کے گھر ( کی عورت ) کے ساتھ بغیر مال کے زنا کیا جاتا ہے ۔ خود کو حرام سے پاک رکھو، تمہاری عورتیں بھی پاک رہیں گی اور ان کاموں سے بچو جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہیں ۔ اگر تم آزاد و شریف نسل سے ہوگے تو پھر کسی مسلمان کی عزت پامال نہیں کروگے ۔

اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا کہ یہ دن منانا غلط ہے اور اس دن کی مناسبت سے ہونے والی تقاریب میں شمولیت، گناہ کی بات ہے۔ مسلمانوں کو ایسے محافل، اجتماعات، تقریبات اور ایام سے دور رہنا چاہئے۔ لیکن اس طرح کوئی نہیں سوچتا، جبکہ یہ محافل کے انعقاد کا واحد مقصد شعائر اسلام کی توہین ہے۔ ایسی غلط چیزوں میں ادارے، تنظیمیں، نوجوان طبقہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ان سب کو چاہئے کہ اس طرح کی سرکشیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ کیونکہ شعائر اسلام کی توہین عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان تقریبات کا مقصد محض ثقافت کا اظہار ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
مگر ہماری بد قسمتی ہے کہ نام نہاد ترقی پسند یافتہ لوگ اور یہود و ہنود کے اشاروں پر چلنے والے اس طرح کی غیراسلامی تقریبات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان سب کے مقاصد یہی ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں متحد ہونے نہ دیاجائے، تعلیمات اسلامیہ سے محروم کیا جائے ،احکام ِالٰہیہ اور اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کیا جائے اور دلوں سے خوف ِخدا و محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دیا جائے۔
یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے} کا مطلب رومی، عیسائی اور مشرک کی مشابہت اختیار کرنا ہے جیساکہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے مشابہت کے متعلق ترمذی میں ارشاد فرمایا ہے : من تشبہ بقوم فھو منھم
ترجمہ ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے‘‘
بے شک موجودہ دور میں یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے} کا مقصد ایمان و کفر کی تمیز کئے بغیر تمام لوگوں کے درمیان محبت قائم کرنا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ کفار سے دلی محبت ممنوع ہے۔ کیونکہ کفار یہی چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلائی جائے۔جب کہ سورئہ نور میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :’’ اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے‘‘۔ {سورئہ نور}

’’یوم عاشقاں {ویلنٹائن ڈے}‘‘ کے موقع پر جو کچھ ہورہا ہے وہ سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں۔’’۱۴؍ فبروری کویوم عاشقاں کہہ کر بے حیائی پھیلائی جارہی ہے آخر اِس کے ذمہ دار کون ہے ؟‘‘ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جن پر ان کے ما تحت کی ذمہ داری ہے اور سب سے بڑی ذمہ داری والدین کی ہے۔ اس لئے ہر مسلمان ماں باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد {لڑکے اور لڑکیاں} کی سخت سے سخت نگرانی کریں، اور ان کی دیکھ بھال کریں کہ وہ گھر میں وقت گزار رہے ہیں تو کس طرح، ان کی گفتگو ہورہی ہو تو کس طریقہ کی، اگر ملاقات ہورہی ہو تو کس سے اور کیسے، حیا کا خاص لحاظ رکھیں، فون اور انٹرنیٹ کے استعمال پر بھی خاص توجہ دیں اور خاص طور پر ۱۴؍ فبروری کا دن بنام ’’یوم عاشقاں‘‘ {ویلنٹائن ڈے} سے بہت دور رکھیں اوراگر ہوسکے تو اس تاریخ کے متعلق واضح کریں کہ یہ ہمارامذہب جو مذہب اسلام ہے ہر گز اس کو اپنانا نہیں سکھاتا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے۔ آمین
zubairhashmi7@gmail.com