ویکسین کو لازمی بنانے کا وقت آگیا

   

برکھا دت
سارے ملک میں ڈاکٹر حضرات ہم سے یہی کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس کی وباء ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، احتیاط لازمی ہے۔ ڈاکٹروں کے اس مشورے کی ایک وجہ بھی ہے اور وجہ یہ ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران اومیکرون جیسی کورونا وائرس کی قسم منظر عام پر آئی۔ کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کے بعد اومیکرون اس وائرس کی ساتویں قسم ہے جس نے اپنی آمد کے ذریعہ کورونا وائرس وباء کی اگلی لہر کا اشارہ بھی دے دیا ہے۔ یہ لہر ہند و بیرون ہند میں پھیل سکتی ہے۔ مختلف ملکوں نے اومیکرون کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی نہ صرف سفری پابندیاں عائد کردی ہیں بلکہ مختلف احتیاطی تدابیر کے نام پر سخت اقدامات بھی کرنے لگے ہیں۔ ان میں خود ہمارا ملک ہندوستان بھی شامل ہے۔ کورونا وائرس کی یہ قسم ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اسکولوں کو بند کئے جانے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ اس تناظر میں اسکولوں کو طویل عرصہ تک بند رکھتے ہوئے آن لائن کلاسیس چلائی جاسکتی ہیں۔ اگر ہم کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران اپنائے گئے راستے پر دوبارہ چلتے ہیں تو پھر یہ ہمارے بچوں کے ساتھ مجرمانہ دغا ہوگی۔ پہلے ہی سے ہمارے بچے ایک طویل مدت تک اسکولس بند کئے جانے سے متاثر ہوئے ہیں اور ہمارے ملک میں تو دنیا کے طویل ترین لاک ڈاؤن نافذ کئے گئے۔ اسکولس بند کئے جانے کے نتیجہ میں بچوں کی صلاحیتیں بالخصوص سماجی صلاحیتیں متاثر ہوئی ہیں۔ ذہنی نمو کو نقصان پہنچا ہے اور سیکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوجائے گی۔ اگر دیکھا جائے تو ہم سب کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ 2020ء نہیں ہے، کورونا وائرس یا اس کے خطرناک اقسام کے خلاف مقابلے کیلئے ہمارے پاس جو سب سے بڑا ہتھیار ہے، وہ ویکسین ہے، جہاں تک ٹیکوں کا سوال ہے، دوسری لہر کے نقطہ عروج پر پہنچنے کے دوران ہمارے ملک میں اس کی قلت پائی گئی اور اب بھی اس کے موثر انداز میں استعمال سے گریز کیا جارہا ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ اومیکرون بھی منظر عام پر آچکا ہے، ویکسین کو لازمی قرار دینے کی ضرورت ہے، لیکن میرے دوستوں نے جن کا تعلق صحت عامہ کے حلقوں سے ہے، ہمیشہ میری اس تجویز کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی ہے کہ ایک آزاد معاشرے میں کسی کو بھی کسی چیز کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں، لیکن جہاں ریاست ویکسین فراہم کرسکتی ہے (جیسا کہ سمجھا جارہا ہے کہ ٹیکوں کی قلت نہیں ہے) اور ہمارے شہری ہنوز ٹیکے لینے سے گریز کررہے ہیں ان کا ایسا کرنا نہ صرف خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے بلکہ اپنی مرضی و منشاء کے تحت زندگیوں ، جینے کے انداز اور اپنی ہر چیز کو تباہ کرنا ہے۔ جب لوگوں میں ہچکچاہٹ پائی جائے یا توہم پرستی زوروں پر ہو تو پھر سمجھئے کہ سائنس اس ملک کو تباہ کردیتی ہے۔ آج ہمارا مقابلہ ایک ان دیکھے وائرس سے ہے اور اس کے کئی اقسام منظر عام پر آتی جارہی ہیں۔ اس کا مقابلہ جیسا کہ میں نے سطور بالا میں لکھا ہے کہ ویکسین کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ حکومت بلند بانگ دعوے کررہی ہے کہ ہم نے کروڑہا کی تعداد میں لوگوں کو ٹیکے دیئے ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ 120 ملین سے زائد ہندوستانیوں نے دوسرا ٹیکہ نہیں لیا ہے۔ آپ کو یہ بھی جان کر حیرت ہوگی کہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں غیراستعمال شدہ ٹیکے خانگی اسپتالوں کے اسٹور رومس میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کی تاریخ استعمال اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ اس طرح ٹیکوں کا اسٹورس میں پڑا رہنا ڈاکٹروں، نرسیس اور ان لوگوں کی توہین ہے، جن کا کوئی نہ کوئی عزیز کووڈ۔ 19 کا شکار ہوکر اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان لوگوں کو وقت پر کووڈ کے ٹیکے نہیں مل سکے تھے، جہاں تک ٹیکے لینے کا سوال ہے، جنوبی ریاستیں اس معاملے میں آگے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ویکسین پاسپورٹس کس طرح اہمیت رکھتے ہیں۔ شاپنگ مالس اور سنیما تھیٹرس جیسے پرہجوم انڈور مقامات پر داخلے کیلئے بھی ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملے میں مرکزی حکومت کو یکساں وفاقی پالیسی کا اعلان کرنا چاہئے۔ ایک ایسی پالیسی جس کے تحت سفر شادی بیاہ کی تقاریب، دعوتوں، کلبوں، سنیما ہالس اور بڑی تعداد میں لوگوں کے اجتماع کے لئے ویکسین کو لازمی قرار دیا جائے۔ اسی طرح ملازمتوں کے مقامات پر بھی سرکاری اور خانگی تنظیموں کو ٹیکوں کے دو ڈوز لازمی قرار دینے کا اختیار دیا جانا چاہئے۔ سرکاری اور خانگی ادارے اپنے طور پر اس بات کو لازمی قرار دینے کا اختیار حاصل کرلیں کہ وہ ملازمت کیلئے ٹیکے کی شرط بھی عائد کرسکیں۔ میں تو یہ کہوں گی کہ انتخابات میں مقابلے کو بھی ویکسین سے جوڑ دیا جائے۔ اگر پالیسی ساز چاہیں تو ویکسین کو لازمی قرار دے سکتے ہیں اور ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جس سے ویکسین کے بغیر روزمرہ کی سرگرمیاں ناممکن ہوسکتی ہیں، اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ بسوں اور میٹرو لائنس یا پھر کسی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر سے رجوع ہونے کیلئے ویکسین پاسپورٹ لازمی قرار دے۔ اسی طرح ٹیکسوں کی ادائیگی کے موقع پر ٹیکے لینے والوں کو مراعات سے نوازا جائے یا انہیں سبزی اور اناج کی خریدی کے دوران ڈسکاؤنٹ کی پیشکش کی جائے۔ اسی طرح کرکٹ اسٹیڈیم میں داخلے کیلئے QR کوڈ کو ضروری کردیا جائے۔ شکر ہے کہ مغربی دنیا کی طرح ہمارے ملک میں ویکسین کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی جارہی ہے۔ ہاں پہلے اور دوسرے ٹیکے کے درمیان وقفے کو لے کر تجسس پایا جاتا ہے۔ یہ بھی ہیلپ ورکرس فرنٹ لائن پر خدمات فراہم کرنے والوں اور بزرگوں اور دیگر افراد کیلئے مکمل طور پر غیرمنصفانہ ہے کہ انہیں اب کورونا ویکسین کا تیسرا ڈوز یا بوسٹر دینے کی باتیں ہورہی ہیں۔ میں نے جنوبی آفریقہ کے دو مختلف ماہرین سے بات چیت کی۔ ان میں سے ایک انجیلک کویٹزی جنہوں نے ایک اینٹی جن ٹسٹ میں پہلی مرتبہ اومیکرون کو دیکھا تھا وہ ہیں اور دوسرے ماہر وبائیات سلیم کریم ہیں۔ ان دونوں ماہرین نے اس بات کی توثیق کی کہ ہندوستان میں اومیکرون ہر کیس ہلکے اثر کا دیکھا گیا اور اومیکرون سے بچاؤ کا واحد طریقہ ویکسین ہی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اومیکرون ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے لیکن اس کی شدت ڈیلٹا یا کورونا وائرس کی دیگر قسم سے کم ہے اور اس بات کی توثیق ہوچکی ہے کہ جن لوگوں نے ٹیکے لئے ہیں، وہ ٹیکے انہیں بیماری، شریک دواخانہ ہونے اور موت سے تحفظ فراہم کئے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں ٹیکہ اندازی مہم کے نتیجہ میں تازہ ترین اومیکرون قسم کے باوجود ایک بھی موت نہیں ہوئی ہے۔ اگر ٹیکہ اندازی مہم نہیں ہوتی تو کورونا وائرس کی اس قسم سے بے شمار اموات ہوجاتی۔
اگر آپ نے دو ویکسین لے لئے ہیں ، اس کے باوجود بھی اومیکرون سے متاثر ہوئے ہوں تب بھی آپ محفوظ رہیں گے۔ اس کی وجہ ہائبرڈ اِمیونٹی ہے جو آپ کو آئی سی یو میں جانے اور آکسیجن کی ضرورت سے تحفظ فراہم کرے گی۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اب تک جو لوگ اومیکرون سے متاثر ہوئے ہیں ، ان لوگوں میں تنفس کی پیچیدگیاں نہیں دیکھی گئیں۔ ان حالات میں ہم تمام کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ تمام بالغوں کیلئے ٹیکوں کو یقینی بنائیں اور انہیں یہ بتائیں کہ ٹیکوں کے بغیر آپ کی زندگیوں کیلئے پریشانیوں پیدا ہوسکتی ہیں اور یاد رکھئے کہ آنے والے دنوں میں کورونا کی مختلف اقسام کا سلسلہ جاری رہے گا اور یہ سمجھنے کی کبھی غلطی نہ کریں کہ اومیکرو ن آخری وائرس ہے۔ اس کرۂ ارض پر ابھی ڈھیر سارے وائرس آسکتے ہیں۔