پارلیمانی انتخابات اور کانگریس

   

اس لئے دوستوں سے ڈرتا ہوں
دشمنوں کا بھلا نہ ہو جائے
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ملک بھر میں آئندہ پارلیمانی انتخابات کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک طرح سے کسی طرح کا وقفہ لئے بغیر ان انتخابات کی تیاریوں میں جٹ گئی ہیں۔ ایسا تاثر عام ہونے لگا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات دو اتحادوں میں لڑے جائیں گے ۔ ایک بی جے پی زیر قیادت این ڈی اے اتحاد ہوگا جو اب مرکز میں برسر اقتدار ہے جبکہ دوسرا اتحاد برسر اقتدار اتحاد کو چیلنج کرنے والا کانگریس کی قیادت والا انڈیا اتحاد ہوسکتا ہے ۔ ہر اتحاد میں تقریبا تین درجن سے زیادہ جماعتیں موجود ہیں اور وہ ایک دوسرے پر سبقت لیجانے اور عوام کی تائید سے زیادہ سے زیادہ لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس کیلئے ان جماعتوں نے اپنی منصوبہ بندیوں کا آغاز بھی کردیا ہے اور اپنی اپنی حکمتع ملی کو قطعی شکل دینے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ ایسے میں کانگریس کیلئے آئندہ پارلیمانی انتخابات بہت زیادہ اہمیت کے حامل کہے جاسکتے ہیں۔ گذشتہ دو لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو بری طرح سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ بی جے پی اس بار بھی لگاتار تیسری کامیابی حاصل کرنے کوشاں ہے تاہم کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتیں بی جے پی کی کامیابیوں کا سلسلہ یہاں روکنا چاہتی ہیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ کانگریس اپنے آپ کو مستحکم کرے اور زیادہ سے زیادہ عوام تک رسائی حاصل کرتے ہوئے ان کی تائید اور ووٹ دونوں ہی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ کانگریس کیلئے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت اس لئے بھی ہوگئی ہے کیونکہ حالیہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اسے محض تلنگانہ میں اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اس کا اقتدار چھن گیا ہے اور مدھیہ پردیش میں وہ بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔ کانگریس اپنے طور پر تیاریوں کا آغاز کر بھی چکی ہے تاہم اس کی حکمت عملی کو موثر بنانا زیادہ ضروری ہے ۔ بی جے پی کا ہر طرح سے جواب دینا چاہئے اور تشہیری حربے اور ہتھکنڈے بھی موثر ڈھنگ سے تیار کئے جانے چاہئیں۔ آئندہ انتخابات کانگریس کیلئے سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوگئے ہیں۔
جہاں تک انڈیا اتحاد کی بات ہے تو یہ حقیقت ہے کہ انتہائی کمزور اور خستہ حالت میں بھی کانگریس ہی اس اتحاد کی سب سے بڑی جماعت ہے اور اس کو آئندہ انتخابات میں اتحاد کی قیادت کرنی ہوگی ۔ حالانکہ وزارت عظمی امیدوار کا فیصلہ الیکشن سے قبل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ضرورت پڑ جائے تو الیکشن کے بعد اس پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے تاہم کانگریس کو اپنی صفوں کو مستحکم کرنے اور زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کانگریس کو مخصوص حلقوں کا انتخاب کرتے ہوئے ابھی سے تیاریاں شروع کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے امیدواروں کا انتخاب کیا جانا لازمی ہوگا جو عوام کی تائید حاصل کرسکتے ہوں اور کامیابی کے امکانات روشن رکھتے ہوں۔ صرف سفارشی یا پھر کسی کی تائید و حمایت کی وجہ سے یا قربت کی وجہ سے امیدواروں کا انتخاب نہیں کیا جانا چاہئے ۔ مقامی اور علاقائی سطح پر امیدواروں کی شبیہہ کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے اور عوام کی نبض اور ان کی رائے کو سمجھنا بھی ضروری ہے ۔ جن ریاستوں میں علاقائی جماعتیں مستحکم ہیں وہاں کانگریس کو قدرے پیچھے ہٹنے سے گریز نہیں کرنا چاہئے ۔ محض چند نشستوں کی کمی یا بیشی کی وجہ سے اتحاد کے امکانات کو متاثر کرنے سے سبھی کو گریز کرنا چاہئے اور اس کی زیادہ ذمہ داری کانگریس پر عائد ہوتی ہے ۔ عوام تک رسائی کے موثر طریقے اختیار کئے جانے چاہئیں اور انتخابی مہم میں اٹھائے جانے والے مسائل کی بھی قبل از وقت نشاندہی کی جانی چاہئے ۔
حالانکہ کانگریس لیڈر راہول گاندھی اپنی بھارت جوڑو یاترا کو کامیاب بناچکے ہیں اور اب وہ اس یاترا کا دوسرا مرحلہ بھارت جوڑو نیائے یاترا شروع کرنے والے ہیں تاہم پارٹی کو محض اس یاترا پر اکتفاء کرنے اور ساری ذمہ داری راہول گاندھی پر عائد کرنے کی بجائے ریاستی اور علاقائی سطح پر بھی مقامی قائدین کو سرگرم ہونے اور عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ چھتیس گڑھ ‘ گجرات اور مہاراشٹرا جیسی ریاستوں کیلئے جامع حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہاں بی جے پی کی نشستوں کی تعداد کو کم سے کم رکھا جاسکے اور خود کانگریس یہاں ممکنہ حدتک زیادہ کامیابی حاصل کرسکے ۔ پارٹی کے ہر لیڈر کو اس مقصد کیلئے سرگرم ہوجانے کی ضرورت ہے ۔
تلنگانہ ‘ سیاسی سرگرمیوں میں پھر تیزی
تلنگانہ ریاست میں اسمبلی انتخابات کا عمل ابھی ابھی مکمل ہوا ہے۔ ریاست میں کانگریس حکومت کے قیام کو ایک ماہ کا عرصہ ہو رہا ہے تاہم ریاست میں سیاسی سرگرمیاں ایک بار پھر تیز ہونے لگی ہیں۔ ایک تو لوک سبھا انتخابات کی تیاریاں سبھی جماعتوں کی جانب سے شروع کی جاچکی ہیں تو دوسری جانب قانون ساز کونسل کے انتخابات کی وجہ سے بھی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ کانگریس میں ایم ایل سی نشست حاصل کرنے کے کئی خواہشمند قائدین موجود ہیں۔ کئی ایسے ہیںجنہیں اسمبلی انتخابات میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔ یہ سبھی قائدین اپنے اپنے طور پر سرگرم ہوچکے ہیں۔ کانگریس پارٹی کا جہاں تک سوال ہے تو وہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی تیاری کرتی نظر آر ہی ہے ۔ بی آر ایس بھی در پردہ سرگرم ہوچکی ہے۔ اس کے قائدین اپنے کیڈر کو لوک سبھا انتخابات کیلئے تیار ہوجانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ تیز رفتار سیاسی سرگرمیوں پر عوام کو بھی قریبی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین کی سرگرمیوں سے قطع نظر انتخابات میں عوام کا فیصلہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور عوام کو ساری صورتحال سے باخبر ہونا چاہئے ۔