پانچ ریاستوں کے انتخابات

   

کانگریس اور بی جے پی کی آزمائش
پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پیر 9 اکتوبر کو 5 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا یعنی تواریخ کا اعلان کیا جس کے ساتھ ہی ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ بھی ہوگیا کہ مسٹر نریندر مودی اس موقع کو ون نیشن ون الیکشن کارڈ (ONOE) کھیلنے کے لئے استعمال کرسکتے ہیں۔ میں نے طویل عرصہ سے یہی کیا ہے کہ ون نیشن ون الیکشن ناقابل عمل ہے اور 2023 کے انتخابات یا 2024 کے عام انتخابات میں ممکن بھی نہیں۔ جہاں تک 5 ریاستو ں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، میزورام اور تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات کا سوال ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں اور سیاسی مبصرین نے ان انتخابات کو بی جے پی کے زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) اور اپوزیشن اتحاد I.N.D.I.A کے درمیان طاقت کی آزمائش قرار دے رہے ہیں۔ اس معاملہ میں میرا نقطہ نظر مختلف ہے اور وہ یہ ہیکہ جے ڈی یو، شیوسینا اکالی دل اور اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی اہمیت کی حامل سیاسی جماعتوں کے نکل جانے کے بعد قدیم این ڈی اے موجود نہیں رہا۔ این ڈی اے میں اور این ڈی اے کے لئے جو کچھ بچ گیا ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی ہے، وکی پیڈیا کے مطابق این ڈی اے میں 34 سیاسی جماعتیں شامل ہیں لیکن اکثر لوگ ایک سے زیادہ پارٹی کا نام نہیں جانتے۔ اس کا مطلب این ڈی اے کا دوسرا نام بی جے پی ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن اتحاد I.N.D.I.A ہے لیکن پانچ ریاستوں میں جہاں نومبر میں انتخابات ہونے والے ہیں کانگریس واحد پارٹی ہے جو اصل دعویدار ہے اور اس کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ چھتیس گڑھ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان راست مقابلہ ہے جبکہ تلنگانہ میں ایک تیسرا کھلاڑی (پارٹی) بھی ہے۔ حکمراں بی آر ایس کا دعویٰ ہیکہ اسے کانگریس اور بی جے پی سے مقابلہ ہے۔ میزورام میں چار رخی مقابلہ ہے جس میں تین علاقائی جماعتیں اور کانگریس شامل ہیں۔ بی جے پی کی زیادہ اہمیت نہیں۔ حریف جماعتوں کی حکمت عملی ، میرے خیال میں اسی وجہ سے 5 ریاستوں کے مجوزہ اسمبلی انتخابات بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ایک طرح سے طاقت کی آزمائش ہے۔ اس معاملہ میں آپ کو بتادیں کہ بی جے پی نے ان انتخابات میں امیدواروں کے ناموں کا اعلان کرنے میں بڑی عجلت سے کام لیا۔ (یہ اور بات ہیکہ اب تک اس نے تلنگانہ اسمبلی انتخابات کے لئے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا) لیکن اس نے اس مرتبہ چیف منسٹر کے امیدوار کے نام کا اعلان نہیں کیا۔ (ہم بات کررہے ہیں مدھیہ پردیش کی) ہر طرف صرف مودی کا چرچہ ہے ہر طرف مودی کی ریالیاں منعقد کی جارہی ہیں۔ پیسہ کا بے تحاشہ استعمال ہو رہا ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ مذکورہ ریاستوں میں وہاں کی مقامی قیادت انتخابی مہم چلائے گی اور کانگریس کی قومی قیادت ان کی ہر طرح مدد کرے گی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ نومبر میں جن پانچ ریاستوں میں انتخابات ہونے والے ہیں گزشتہ مرتبہ وہاں سال 2018 میں انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تھا اور بی جے پی کو ان تمام میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں آج کانگریس کا اقتدار ہے جبکہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی نے کانگریس کے ارکان اسمبلی کو منحرف کرواتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کیا جبکہ میزورام اور تلنگانہ میں وہاں کی مقامی یا علاقائی پارٹیاں اقتدار پر فائز ہیں۔ اس لئے ان 5 ریاستوں میں یکساں حالات نہیں پائے جاتے چنانچہ ہر ریاست میں ہر سیاسی جماعت کے امکانات کا جائزہ الگ الگ لینا پڑے گا۔
ویسے بھی میں کوئی پیشن گوئی کرنے کی خواہش نہیں رکھتا بلکہ مختلف رپورٹس کے ذریعہ حاصل کردہ معلومات اور تفصیلات کی بنیاد پر بڑی احتیاط کے ساتھ جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے چھتیس گڑھ کی بات کرتے ہیں اس ریاست کے اب تک تین چیف منسٹرس رہے۔ آنجہانی اجیت جوگی (2000-2003) مسٹر رمن سنگھ (2003-2018) اور مسٹر بھوپیشن باگھیل (2018 سے عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہیں) اس ریاست میں حکومت مخالف لہر کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ چھتیس گڑھ ملک میں چاول کی پیداوار کے معاملہ میں سرفہرست ریاست بن گئی ہے اور اس ریاست کے کسان پہلے سے کہیں زیادہ خوش ہیں۔ باگھیل حکومت نے کسانوں کے بشمول عوام کی بہبود کے لئے بے شمار اسکیمات پر عمل آوری کی اور قبائیلی فخر میں اضافہ کیا۔ اقتدار قبائیلیوں اور او بی سیز کو منتقل ہوگا لیکن عام طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ کانگریس اقتدار پر واپسی ہوگی، نجی محفلوں میں بھی بی جے پی قائدین اس پیش قیاسی کو چیالنج کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔
مدھیہ پردیش : اس ریاست میں مسٹر کمل ناتھ لوگوں کے ذہنوں میں وہ یادیں تازہ رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑیں گے کہ کس طرح بی جے پی کے انحراف کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کیا اور نہ ہی عوام 2020 کی غداری کو پھیلا پائیں گے (ایسا محسوس ہوتا ہے) مسٹر شیوراج سنگھ چوہان ایک کہنہ مشق سیاستداں ہیں لیکن اب بہت تھک چکے ہیں۔ بی جے پی نے کئی طرح سے یہ اشارہ دے چکی ہے کہ اب شیوراج سنگھ چوہان پر اس کا اعتماد یا بھروسہ نہیں رہا نتیجہ میں بی جے پی نے عہدہ چیف منسٹری پر فائز ہونے کی آگ کئی دلوں میں روشن کردی جن میں کچھ مرکزی وزراء بھی شامل ہیں۔ بی جے پی مدھیہ پردیش میں ڈسمبر 2003 سے اقتدار میں ہے۔ سوائے 15 ماہ کے مختصر وقفہ کے ۔ اس ریاست میں تبدیلی کے واضح اشارے مل رہے ہیں۔
راجستھان : یہ ایسی ریاست ہے جہاں 1990 سے کوئی بھی سیاسی پارٹی مسلسل دوسری مرتبہ حکومت نہیں بناسکی۔ ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے مسٹر اشوک گیہلوٹ کی قیادت میں خود کو متحد رکھا ہے جنہوں نے ریاست میں کئی ایک بہبودی اسکیمات شروع کیں اور اس پر عمل آوری بھی کروائی۔ راجستھان میں بی جے پی مایوس ہے کیونکہ آج کی تاریخ تک مس وسندھرا راجے اور ان کے گروپ کو نظرانداز کرکے رکھا گیا ہے یہ ایسی ریاست ہے جہاں دیکھا ہے کہ ہونا کیا ہے۔
تلنگانہ : ۔ اس ریاست میں بی جے پی کافی سرگرم ہوگئی تھی لیکن اب اصل مقابلہ حکمراں بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان دکھائی دیتا ہے۔ بی جے پی تیسرے مقام پر چلی گئی ہے۔ 17 ستمبر 2023 کو کانگریس ورکنگ کمیٹی اجلاس کے بعد تکو گوڑہ میں پارٹی کی ریالی کا اہتمام کیا گیا میں نے کئی برسوں بعد اس قدر بڑی ریالی دیکھی جس کے شرکاء میں کم از کم 40 فیصد نوجوان (جن کی عمریں 15-29) تھے سیاسی مبصرین، صحافی اس بات کو لے کر متفق ہیں کہ کانگریس ریاست میں بہت طاقتور ہوگئی ہے۔ اس لئے اب مقابلہ بی آر ایس اور کانگریس کے درمیان ہیہ۔ تلنگانہ میں کرناٹک کی طرح ایک اور حیرت انگیز کامیابی کانگریس کو حاصل ہوسکتی ہے۔
میزورام : اس ریاست میں مقابلہ علاقائی پارٹیوں کے درمیان ہے۔ کانگریس کو ایک نیا لیڈر ملا ہے۔ مسٹر لال سوانا کی شکل میں، بی جے پی منظر سے غائب ہے۔ چیف منسٹر میزورام تھنگا اور ان کی پارٹی نے منی پور بحران کے ساتھ ساتھ ککی قبائل کی میزورام نقل مکانی اور ککی۔ زومی فخر کا بڑی ہشیاری سے استعمال کیا ہے۔ رائے دہندوں کی رائے منقسم رہے گی اور ایسا لگتا ہے کہ ایک اور مخلوط حکومت بننے والی ہے۔ بہرحال یہ صرف پیش قیاسیاں ہیں اور یہ کبھی درست اور کبھی غلط ثابت ہوسکتی ہیں۔