پاکستان میں انتخابی بدعنوانیاں

   

ہم نے سدا اخلاق سے جیتا ہے دلوں کو
دُشمن پہ بھی اپنے سدا احسان کیا ہے
پڑوسی ملک پاکستان میں 8 فبروری کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے ۔ 10 فبروری تک انتخابی نتائج بھی سامنے آگئے تاہم اب تک بھی وہاں یہ واضح نہیںہوسکا ہے کہ کون سی جماعت یا کونسا اتحاد ایسا ہے جو حکومت تشکیل دے گا اور کون ہے جو ملک کا وزیر اعظم بنے گا ۔ حالانکہ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ اور پیپلز پارٹی کے مابین اتحاد کے واضح امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ مختلف گوشوں سے ابتداء ہی سے یہ الزامات عائد کئے جا رہے تھے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ بدعنوانیاں کی گئی ہیں۔ عوامی رائے میں الٹ پھیر کیا گیا ہے ۔ نتائج کو تبدیل کرنے جیسی حرکتیں کی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے خاص طور پر مسلم لیگ نواز گروپ اور پیپلز پارٹی کی جانب سے اس طرح کے الزامات کو مسترد کردیا گیا تھا کیونکہ یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ انتخابی دھاندلیوں کے ذریعہ ہی ان دونوں جماعتوں کو اتنی نشستیں مل سکی ہیں جو الیکشن کمیشن نے بتائی ہیں۔ حقیقت میں سب سے زیادہ کامیابی عمران خان کی تحریک انصاف کی تائید والے امیدواروں کو حاصل ہوئی ہیں اور پاکستان تحریک انصاف کو اپنے طور پر ملک میں حکومت تشکیل دینے کیلئے درکار عددی طاقت بھی مل گئی ہے ۔ تاہم چونکہ عمران خان جیل میں ہیں اور انہیں مختلف مقدمات میں سزائیں سنائی جاچکی ہیں ایسے میں ان کی پارٹی کے تائیدی امیدوار یکجا نہیں ہوسکے اور نہ ہی ان کی قیادت کرنے والا کوئی مقبول عام لیڈر موجود تھے ۔ اس کے باوجود اس کے تائیدی امیدواروں نے جتنی کامیابی حاصل کی ہے اس کے نتیجہ میں واضح ہوگیا ہے کہ اقتدار کی حصہ داری کیلئے جو جماعتیں اب متحرک ہو گئی ہیں وہ عوام کی جانب سے مسترد کردی گئی ہیں۔ انہیں عوام نے ووٹ نہیں دیا ہے ۔ اب انتخابات میں دھاندلیوں اور بدعنوانیوں کے الزامات کو مزید تقویت اس وقت ملی ہے جب ایک سینئر عہدیدار کمشنر راولپنڈی نے الزام عائد کردیا ہے کہ انتخابی نتائج میں الٹ پھیر کیا گیا ہے ۔ بڑے پیمانے پر دھاندلیاں ہوئی ہیں۔ انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ کئی امیدوار ایسے ہیں جنہیںشکست ہوگئی ہے لیکن ان کو کامیاب قرار دیدیا گیا ہے ۔ یہ سب کچھ زبردست دباؤ کے ذریعہ کیا گیا ہے لیکن انہوں نے حقائق کو منظر عام پر لادیا ۔
کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چھتہ نے باضابطہ اعلان کیا کہ پاکستان کے چیف الیکشن کمشنرا ور وہاں کے چیف جسٹس بھی ان دھاندلیوں اور بدعنوانیوں میں ملوث رہے ہیں اور انہوں نے ہی دوسرے عہدیداروں کو اس عمل میں الٹ پھیر کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ لیاقت علی چھتہ نے دعوی کیا کہ ان پر نتائج پر اثر انداز ہونے کیلئے بے تحاشہ دباؤ بنایا گیا تھا اور صورتحال یہاں تک پہونچ گئی تھی کہ انہوں نے ایک موقع پر خودکشی کرنے کا تک ارادہ کرلیا تھا ۔ تاہم بعد میں انہوں نے اپنا ذہن بدلا اور حقائق کو ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ان الزامات کو مسترد کردیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا سارا انتخابی عمل ہی داغدار ہوگیا ہے ۔ کئی ایسے امیدوار تھے جنہیں پہلے ناکام دکھایا گیا تھا تاہم بعد میں اچانک ہی انہیں کامیاب قرار دیدیا گیا ۔ انتخابی نتائج کے اعلان میں جو تاخیر کی گئی ہے اس سے ہی شبہات کو تقویت مل رہی تھی اور اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ نتائج میں الٹ پھیر ہوسکتا ہے تاہم اب خود الیکشن کمیشن سے وابستہ سینئر عہدیدار کی جانب سے یہ انکشاف کئے جانے کے بعد معاملہ بالکل واضح ہوگیا ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے ۔ جمہوریت کو جس طرح سے پاکستان میں داغدار کیا گیا ہے اس کی مثال دنیا بھر میں شائد ہی مل سکے ۔ خود سیاسی جماعتوں نے اپنے اقتدار اور عہدہ کے لالچ میں اس عمل کو پراگندہ کردیا ہے اور وہ یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ انہیں اس طرح کی کالی کرتوتوں پر کوئی پچھتاوا بھی نہیں ہے اور وہ اپنے گناہ کا اقبال بھی کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
پہلے ہی سے کہا جا رہا تھا کہ نواز شریف اور ان کی پارٹی کو پاکستانی فوج کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے امیدواروں کو کئی مقامات پر شکست کے باوجود کامیابی دلائی گئی ہے ۔ اب اسی جماعت کو اقتدار حوالے کرنے کے تعلق سے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہوگئی ہے کہ انتخابی عمل داغدار رہا ہے اور وہاں دکھاوے کیلئے پولنگ ہوئی ہے ۔ پہلے سے طئے شدہ مہروں کو اقتدار کی بساط پر فائز کیا جا رہا ہے ۔ اس سارے معاملے میں ایسا لگتا ہے کہ جہاں داخلی عناصر سرگرم ہیں وہیں بیرونی طاقتیں بھی ہیں جو پاکستان کو اپنے اشاروں پر چلانا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے کٹھ پتلی افراد کو ہی اقتدار پر فائز دیکھنا چاہتی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل کی جاسکے ۔ پاکستان کا مستقبل اب خود اس کے اپنے ہاتھ میںنہیں بلکہ بیرونی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہوگیا ہے ۔
تلنگانہ میں پراجیکٹس کی تحقیقات
تلنگانہ میں ریونت ریڈی کی زیر قیادت کانگریس حکومت کے تشکیل پانے کے بعد سابقہ بی آر ایس حکومت میں تعمیر کئے گئے پراجیکٹس کی تحقیقات اب موضوع بحث بنی ہوئی ہے ۔ ریاستی حکومت نے کئی پراجیکٹس کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا جن میں کالیشورم پراجیکٹ بھی شامل ہے ۔ کالیشورم پراجیکٹ بی آر ایس کیلئے میڈل کے برابر تھا ۔ بی آر ایس نے اس پراجیکٹ کی زبردست تشہیر کی تھی اور بلند بانگ دعوے کئے تھے ۔ کانگریس اقتدار میں آنے سے پہلے ہی سے اس پراجیکٹ میں بدعنوانیوں کا الزام عائد کرتی رہی تھی ۔ اب جبکہ ریاست میں کانگریس حکومت بن چکی ہے کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ واضح کردیا ہے کہ کالیشورم پراجیکٹ کا جو تخمینہ خرچ تھا وہ پراجیکٹ کی تکمیل تک تقریبا دوگنا ہوگیا تھا ۔ اس کے علاوہ دوسری اسکیمات حد تو یہ ہے کہ آسرا پنشن میں بھی کرپشن اور بدعنوانیوں کا انکشاف کیا گیا ہے ۔ ایسے میں کانگریس حکومت اگر تحقیقات کروانا چاہتی ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ تحقیقات سیاسی انتقام کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئیں بلکہ حقائق کو منظر عام پر لانے کے مقصد سے کیا جانا چاہئے ۔ عوامی رقومات کے بیجا استعمال کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اگر کسی نے اس معاملے میں مال بٹورا ہے تو اس کا پردہ فاش کرتے ہوئے حقائق کو منظر عام پر لانا چاہئے ۔ عوام کو حقیقت جاننے کا حق حاصل ہے ۔