پاکستان میں نراج کی کیفیت

   

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا
ساری اُمیدیں ختم ہوئیں دل بیٹھ گیا جی چھوٹ گیا
پڑوسی ملک پاکستان میںعملا نراج کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے ۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی معزولی اور پھر ان کی گرفتاری اور قید کے بعد سے تازہ انتخابات کیلئے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی کردیا گیا تھا ۔ اس اعتبار سے 8 فبروری کو پاکستان میں انتخابات ہونے تھے ۔ تاہم آج پاکستانی ایوان بالا سینیٹ میںقرارداد کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے انتخابات کو ملتوی کرنے کی سفارش کردی گئی ہے ۔ اب اس سفارش پر عمل کرنا پاکستان الیکشن کمیشن کیلئے لازمی ہوگا یا نہیں یہ ایک الگ مسئلہ ہو سکتا ہے اور اس پر بھی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مزید بگڑ سکتی ہے ۔ پاکستان کا سارا سیاسی منظر نامہ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سارے ملک میںافرا تفری اور نراج کی کیفیت ہے ۔ پاکستان کے حکمران اور سیاستدان ایسا لگتا ہے کہ ملک کی بقاء اور اس کے وجود کو برقرار رکھنے کی بجائے اپنے سیاسی فوائدے اور اقتدار کیلئے زیادہ فکرمند ہیں اور وہ چاہتے ہیںکہ ان کی سہولت اور بہتری کے حساب سے ہر کام کیا جائے ۔ کسی بھی جمہوری ملک میں انتخابات اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس ملک میں جمہوریت پر عمل کیا جائے وہاںانتخابات کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ عوام اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے ملک اور حکومتوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے میںاگر انتخابات کو ہی ملتوی کیا جائے اور اڈھاک بنیادوں پر کام کیا جاتا رہے تو پھر اس ملک میں نہ جمہوریت کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے اور نہ ہی عوام کی رائے کا احترام باقی رہ جاتا ہے ۔ ویسے بھی پاکستان میں جو حالات ہیں وہ انتہائی ابتر کہے جاسکتے ہیں۔ ہر محاذ پر نراج کی کیفیت دکھائی دیتی ہے ۔ داخلی امور میں پاکستان بے طرح مسائل کا شکار ہے ۔ مہنگائی اپنے عروج پر پہونچی ہوئی ہے ۔ عوام دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کیلئے حد درجہ مشکلات کا شکار ہیں۔ مہنگی قیمتوں پر بھی اشیائے ضروریہ کی دستیابی ممکن نہیں ہو پا رہی ہے ۔ لا اینڈ آرڈر بھی قابو میں نہیں ہے ۔ قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے ۔ جرائم کی شرح کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کی وجہ بھی مستحکم اور مضبوط حکومت کا فقدان ہے ۔
معاشی محاذ پر پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہونچ چکا ہے ۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہم عاشی اعتبار سے پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے اور اس کا محض اعلان کیا جانا باقی ہے ۔ صرف بیرونی مالیاتی اداروں اور بینکوںسے قرضہ جات حاصل کرنا یا پھر کچھ ممالک سے قرض حاصل کرنا ہی پاکستانی حکمرانوں کو ایک واحد راستہ نظر آنے لگا ہے ۔ ملک میں معاشی سرگرمیوں کو رواں دواں کرنے اور وہاں کے عوام کیلئے حالات کو بہتر بنانے پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔صنعتی سرگرمیوں پر بھی کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ روزگار کے مواقع عوام کو دستیاب نہیں ہیں۔ سرکاری کام کاج بھی انتہائی لا پرواہی سے اور غیر منظم انداز میں چلایا جا رہا ہے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والی کیفیت دکھائی دے رہی ہے ۔ ایسے میںحالات بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر ہونا لازمی ہے اور یہی کچھ پاکستان میں ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ حکمران طبقہ اپنے حال میں مگن ہے ۔ اسے ملک اور ملک کے عوام کی بہتری اور ترقی سے عملا کوئی سروکار نہیں رہ گیا ہے ۔ ہر کوئی اپنی روٹی پر دال کھینچنے میں مصروف نظر آتا ہے ۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ سیاسی وفاداریاں بدل رہی ہیں۔ ہر گذرتے لمحے کے ساتھ دوست اور دشمن بدل رہے ہیں ۔ یہ صورتحال ایسی ہے جو ایک منظم ملک کی عکاسی نہیں کرتی ۔ اس طرح کے حالات پاکستان کے وجود کیلئے خطرہ بن گئے ہیں اور یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ پاکستان عالمی سطح پر اپنا وجود ہی برقرار رکھنے میں شائد ناکام ہوجائے ۔ اس کیلئے وہاں کا حکمران طبقہ زیادہ ذمہ دار ہوگا ۔
جہاں تک انتخابات کا سوال ہے تو اس کو ملتوی کرنے کیلئے سینیٹ میں قرار داد منظور کرتے ہوئے پاکستان الیکشن کمیشن پر دباو میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے حوالے سے غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ وہ انتخابات ملتوی کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ سینیٹ کی قرار داد کو قبول کرنے کمیشن تیار نہیںہے ۔ ایسے میں حکمران طبقہ اور الیکشن کمیشن میں ٹکراو کی نئی کیفیت پیدا ہوگی اور اس پر عدالتی کشاکش کے اندیشے بھی لاحق ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں نراج کی جو کیفیت دکھائی دے رہی ہے وہ بھی ختم ہونے کی بجائے مزید طوالت اختیار کرسکتی ہے اور یہ صورتحال نہ پاکستان کے وجود کیلئے اچھی علامت ہے اور نہ وہاں کے عوام کیلئے ۔