پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک

   

(ہر عیب سے) پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کرائی اپنے بندے کو رات کے قلیل حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ، با برکت بنا دیا ہے ہم نے جس کے گرد و نواح کو تاکہ ہم دکھائیں اپنے بندے کو اپنی قدرت کی نشانیاں … (سورۃ بنی اسرائیل ۔۱) 
یہ سورۃ بنی اسرائیل کے علاوہ اسریٰ اور سبحان کے ناموں سے بھی موسوم ہے۔ اس سورۃ کی پہلی آیت ہی بتا رہی ہے کہ اس کا نزول سفر معراج کے بعد ہوا۔ اور معراج ہجرت سے ایک سال پہلے نبوت کے دسویں سال ہوئی۔عام مضامین کے لحاظ سے اس سورۃ کو ان سورتوں سے گہری مناسبت ہے جو مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئیں۔لیکن دو چیزیں یہاں ایسی موجود ہیں جو دیگر سورتوں میں نظر نہیں آئیں۔ ذکر اسراء کے فوراً بعد بنی اسرائیل کو خطاب فرمایا گیا ہے۔ ان کو ان کی گزشتہ زندگی سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کی تاریخ کے نشیب و فراز، ان کے عروج و زوال کی داستان کے اہم ابواب ان کے سامنے کھول کر رکھ دئیے گئے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ جب بھی انہیں سیاسی برتری، معاشی خوشحالی بخشی گئی تو انہوں نے ہر بار سرکشی اور نافرمانی کی روش اختیار کی۔ اور جب بھی کوئی اللہ تعالیٰ کا رسول انہیں ان کی غلط روی پر متنبہ کرنے کے لیے تشریف لایا تو وہ بپھر گئے اور اسے اپنی عزت نفس کا سوال بنا کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کی ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا۔ اے بنی اسرائیل ! جب بھی تمہاری سرکشی انتہا کو پہنچی تو ہمارا عذاب بھی کبھی بخت نصر کی شکل میں نمودار ہوا اور کبھی (اینٹی اوکس ،پومپئی اور ٹیٹس )رومی بادشاہوں کے روپ میں ظاہر ہوا۔ اور انہوں نے تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ ہیکل سلیمانی کو برباد کر دیا۔ اور تمہیں غلامی کی ذلت کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔