پولیس اور انتظامیہ تعصب و جانبداری سے آلودہ

   

پروفیسر اپورو ا آنند
ملک کے مختلف مقامات بالخصوص کرناٹک میں پیش آئے واقعات سے اب یہ صاف ہوگیا ہے کہ ہندوستان اب دستوری یا آئینی اقدار پر مبنی ریاست نہیں ہے بلکہ یہ بڑی تیزی سے ایک نظریاتی ریاست میں تبدیل ہوتا جارہا ہے اور اس تبدیلی کی رفتار خطرناک حد تک تیز ہوگئی ہے۔ مثال کے طور پر بنگلورو پولیس نے اسٹانڈ اَپ کامیڈین منور فاروقی کا پروگرام رکوا دیا اور یہ سب کچھ اس نے دائیں بازو گروپوں کے دباؤ میں آکر کیا۔ اس میں ذرا برابر بھی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ لا اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری پولیس اور انتظامیہ کی ہے اور یہی پولیس اور انتظامیہ اب رضاکارانہ طور پر آر ایس ایس (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) اور اس کی ذیلی تنظیموں اوراس کے ہمدردوں، حامیوں و ساتھیوں کا کردار پورے جوش و خروش کے ساتھ ادا کررہے ہیں۔ اس ضمن میں منور فاروقی کے پروگرام کو بنگلورو پولیس نے جس انداز میں رکوا دیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف بنگلورو پولیس نے منور فاروقی کے پروگرام کو رکوا دیا، دوسری طرف بیلگاوی میں عیسائیوں کو دعائیہ اجتماع روکنے کی ہدایت دے ڈالی۔ پولیس نے دعائیہ اجتماع روکنے کا جس انداز میں حکم دیا، اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ پولیس کو ملک کی ایک چھوٹی سی اقلیت یعنی عیسائیوں کے حق عبادت کے تحفظ میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہے اور پولیس نے منور فاروقی اور عیسائیوں کے دعائیہ اجتماع سے متعلق جو موقف اختیار کیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو سردرد اور دوسرے درجہ کے شہری مانتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے حق روزگار اور ان کی عبادات کے حق کو اب آر ایس ایس کی تنظیموں کی اجازت چاہئے۔ ایسا صرف کرناٹک میں ہی نہیں ہورہا ہے بلکہ دہلی اس کے قریب ہم بات کرتے ہیں ہریانہ کے گڑگاؤں کی یہ ایک صنعتی علاقہ ہے، وہاں پر مسلمان برسوں سے جمعہ کے موقع پر نماز جمعہ کھلے مقامات پر ادا کرتے آرہے ہیں اور اس طرح کے کھلے مقامات انتظامیہ نے ہی ان کیلئے مختص یا نامزد کئے لیکن اب مسلسل ان کھلے مقامات پر مسلمانوں کو نماز جمعہ ادا کرنے سے روکا جارہا ہے اور اس طرح کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے والی حرکتیں کرنے والوں کو پولیس کی تائید بھی حاصل ہے۔ ہم نے سطور بالا میں اِسٹانڈ اَپ کامیڈین منور فاروقی کے پروگرامس روکے جانے کی بات کی۔ ان کے پروگرامس صرف بنگلورو میں ہی نہیں روکے گئے بلکہ ممبئی اور چھتیس گڑھ کے رائے پور میں بھی روکے گئے۔ یہ پروگرامس پولیس نے اس لئے روکے کہ ہندو تنظیموں نے دھمکیاں دی تھیں۔ پولیس کا فرض تھا کہ وہ دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن اس نے اُلٹے منور فاروقی کے پروگرامس کا اہتمام کرنے والے منتظمین پر دباؤ ڈالا کہ وہ پروگرام ہی منسوخ کردیں۔ اس طرح کا ایک اور واقعہ یاد آگیا جو مدھیہ پردیش کی ساگر یونیورسٹی میں پیش آیا۔ اس یونیورسٹی کے ایک شعبہ کی جانب سے ایک پروگرام کا اہتمام کیا گیا لیکن پولیس نے عین وقت پر منتظمین سے کہا کہ وہ پروگرام منسوخ کردیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اے بی وی پی کو مقررین پسند نہیں تھے اور اس کے عہدیداروں اور کارکنوں نے یہ دھمکی دی تھی کہ پروگرام کو منسوخ نہ کرنے کی صورت میں ہنگامہ برپا کیا جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پولیس، اے بی وی پی والوں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن اس نے ساگر یونیورسٹی کے متعلقہ شعبہ کو پروگرام منسوخ کرنے کیلئے کہا۔ اگر موجودہ صورتحال پر غور کیا جائے تو یہی لگ رہا ہے کہ پولیس اور آر ایس ایس کے نظریات اور رویہ میں میل بڑھتا جارہا ہے اور وہ ملک کے دستوری نظام کے لئے حقیقی خطرہ ہے۔دوسری طرف عدالتیں اب تک شاید یہ مان رہی ہیں کہ یہ سب کچھ انحراف محض اتفاق ہے اور چیزیں خودبخود ٹھیک ہوجائیں گی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ راستہ تباہی کی طرف جارہا ہے۔
انتظامیہ اور پولیس اب آر ایس ایس کے نظریات نافذ کرنے کیلئے اپنی طاقت کا استعمال کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں رہ گیا ہے کہ وہ امن و امان بنائے رکھنے کے نام پر مسلمانوں اور عیسائیوں سے ان کے حق چھین رہے ہیں۔ وہ چوڑی بیچنا ہو، مہندی لگانا ہو، پھل یا روٹی بیچنا یا اڈلی یا ریستوراں کھولنا ہو۔ ہر ایک پر آر ایس ایس کے شرپسندوں کو کوئی نہ کوئی اعتراض ہوتا ہے اور پولیس ان کی طرف سے کام کرنے کیلئے تیار رہتی ہے۔
یہ ضرور کہنا پڑے گا کہ ابھی ہندوستان میں دستور نافذ ہے اور یہ دستور یا آئین ہر شخص کو باوقار زندگی کا حق عطا کرتا ہے اور زندگی کے حق میں اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کام کرنے اپنے آمدنی سے روٹی روزی کا بندوبست کرنے یعنی کمائی کرنے اور اپنے طریقہ سے مذہب پر عمل کرنا شامل ہے اور ان حقوق کے بغیر زندگی کے حق کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ سنگھ پریوار بشمول بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں مانتے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہ حق ہے لیکن اس بنیادی آئینی حق کو نہ ماننے کی اور من مانی تشریح کی چھوٹ پولیس اور انتظامیہ کو نہیں ہے، وہ جو کررہی ہے اس کیلئے یہ بہانہ نہیں کرسکتی کہ سیاسی قیادت کے دباؤ میں وہ ایسا کررہی ہے پھر وہ اپنی وردی اور کرسی کے لائق نہیں۔
ان حالات میں اگر بی جے پی کی زیراقتدار ریاستوں کی پولیس پر مسلمانوں اور عیسائیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہوگا۔ تعجب اس بات پر ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے کرنے کیلئے کسی بہانہ کی تلاش نہیں رہی۔ آج بھی آر ایس ایس اور بی جے پی والوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کرنا پڑ رہا ہے۔ ویسے بھی جو کچھ تھا، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف تشدد کا پروپگنڈہ کرنے والوں کو آر ایس ایس میں اہم مقامات دیئے جاتے ہیں اور ایسے بے شمار لوگ اب عوام کے قائدین اور وزیر بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کسی مسلمان کو نشانہ بنانے کیلئے کوئی بہانہ چاہئے۔ اسی وجہ سے وہ ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کا جھوٹا الزام ہندو خوتین کو گمراہ کرکے اپنے دام الفت میں پھنسانے کا الزام، تبدیلی مذہب کا الزام وغیرہ عائد کرکے کہتے ہیں کہ اب ہم تمہیں تشدد کا نشانہ بناسکتے ہیں۔ تمہاری زندگیوں کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ریاست کے سارے ادارے آر ایس ایس کے ماتحت ہونے کو تیار ہیں، لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ مسلمان اور عیسائی ہندوستانی ہے اور ہندوستان پر ان کا حق اتنا ہی ہے جتنا دوسرے آبنائے وطن کا اور وہ اپنے اس حق کا دعویٰ ضرور کریں گے۔ جو لوگ مسلمان اور عیسائیوں پر تشدد کررہے ہیںاور اس معاملے میں پولیس و ریاست کی مدد حاصل کررہے ہیں۔ انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ تشدد کا یہ کھیل ایک طویل عرصہ تک نہیں چل سکتا۔ جیسا پریم چند نے ایک صدی قبل لکھا تھا کوئی بھی عزت دار طبقہ ایسی ذلت اور اذیت کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتا ،ورنہ وہ اس کی نظروں میں گرجائے گا۔آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہندوؤں کے نام پر کیا جارہا ہے اور ہندو ان تمام پرتشدد حرکتوں کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں، یہ اہم ہے ، کیا انہیں اس امر کا احساس بھی ہے کہ ساری دنیا انہیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔