پہلے پر کاٹ کر ہم کو بے پر کیا

,

   

بے حسی زوال کی علامت… بابری مسجد کا غم بھلادیا گیا
عبادت گاہوں پر بری نظریں … ہرا رنگ دیکھنا بھی پسند نہیں

رشیدالدین
کسی بھی قوم کا زوال اس وقت نہیں آتا جب دولت یا اقتدار چھن جائے۔ حقیقی زوال کسی بھی قوم کا اس وقت ہوتا ہے جب قوم سے احساس ختم ہوجائے۔ جو قوم احساس جیسی دولت سے محروم ہوجائے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کرتا۔ قانون قدرت بھی یہی ہے کہ کسی بھی قوم کو اللہ تعالیٰ کی مدد صرف اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ اپنے طور پر تبدیل ہونے کا ارادہ کرے۔ علامہ اقبال نے بھی قوم سے احساس زیاں کے خاتمہ کو متاع کارواں لٹ جانے سے تعبیر کیا ہے ۔ احساس کا مطلب اپنی تاریخ ، مذہبی اور تہذیبی وراثت سے وابستگی ہے ۔ احساس سے محرومی قوموں کو بے حس بنادیتی ہے۔ ایسے میں وہ زندہ لاش بن کر رہ جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے کئی دہے قبل قوم کی بے حسی پر آنسو بہائے تھے لیکن افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے حسی میں اضافہ ہوتا گیا اور آج حالت یہ ہے کہ عبادت گاہیں چھین لی جائیں ، ناحق خون بہایا جائے ، عرصہ حیات تنگ کردیا جائے ، شریعت میں مداخلت ہوجائے ، دستوری و قانونی حقوق سے محروم کرتے ہوئے دوسرے درجہ کے شہری کا احساس کمتری پیدا کیا جائے ، شہریت پر سوال اٹھائے جائیں، مساجد میں مورتیوں کو بٹھانے کی کوشش کی جائے ، کھلے عام عبادت سے روکا جائے، الغرض ظلم و ستم اور ہراسانی کا انتہا کردی جائے لیکن ہم ہیں کہ بے حسی اور بے غیرتی کا لبادہ اوڑھے ہوئے محکوم کی طرح جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کے رحم و کرم پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ کے رہنما بنات والا نے کہا تھا کہ مسلم قیادت صرف ردعمل کی قیادت بن چکی ہے لیکن آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ رد عمل بھی باقی نہیں رہا۔ وہ قوم جو کبھی حاکم رہی اور علم و حکمت کی بھیک دنیا میں بانٹتی رہی، آج وہی قوم ہر شعبہ میں پسماندہ ہوکر خش و خاشاک اور کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ ہم دستوری اور قانونی حقوق کے لئے بھی آواز اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے۔ کسی بھی حملہ کا دفاع کرنا توکجا ہم ردعمل کا اظہار احتجاج کی شکل میں کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب قیادتیں بے حس اور غیر ذمہ دار ہوجائیں تو قوم میں جراُت مندی اور حوصلہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ قیادتوں کی مصلحت نے قوم کو مٹھی بھر فرقہ پرستوں کے آگے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔ گزشتہ دنوں 6 ڈسمبر کو قیادت اور قوم کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا بدترین مظاہرہ دیکھنے کو ملا ۔ جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہے تو ناکامی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کو محض 29 برسوں میں ہم نے کچھ یوں فراموش کردیا جیسے بابری مسجد نام کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ۔ اپنے گھر میں کوئی مصیبت آجائے یا کوئی دنیا سے گزرجائے تو ہر سال یاد مناتے ہیں لیکن اللہ کے گھر کی شہادت پر ہم افسوس کرنے کیلئے بھی تیار نہیں۔ شائد یہ احساس ہو کہ جس کا گھر ہے وہ جانے ہم کیوں کسی کی ناراضگی مول لیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار نے 1990 ء میں رام مندر کی تحریک میں شدت پیدا کی اور محض دو برس بعد بابری مسجد کو شہید کرنے کی سازش کو عملی جامہ پہنایالیکن مسلمان شہادت کے بعد ہر سال رسمی طور پر ہی سہی یوم سیاہ کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی روایت کو جاری نہ رکھ سکے۔ مسجد کی تعمیر نو تو دور کی بات ہے ، ہم مسجد کا نام بھی زبان پر لینے تیار نہیں۔ جنونیوں نے مسجد کو ڈھانے کی منصوبہ بندی پر دو سال میں عمل کر دکھایا لیکن ہم ہیں کہ مسجد سے خود کو وابستہ کرنے تیار نہیں۔ اسی بے حسی کا فائدہ اٹھاکر سپریم کورٹ کے ذریعہ مسجد کی اراضی مندر کے لئے حاصل کرلی گئی ۔ اسے ناانصافی کہیں یا پھر عدلیہ کی آڑ میں سنگھ پریوار کی دیدہ دلیری کہ ثبوت ، گواہ اور دستاویزات سب کچھ مسجد کے حق میں ہونے کے باوجود ڈنکے کی چوٹ پر آستھا کی بنیاد پر مسجد کی اراضی مندر کو الاٹ کردی گئی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ثبوت اور گواہ تو مسجد کے حق میں ہیں لیکن ہم اکثریتی طبقہ کی آستھا کا احترام کرتے ہوئے اراضی مندر کے حوالے کر رہے ہیں ۔ عدالت نے قابض کو مکان حوالے کر کے اصلی مالک کو بے دخل کردیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو اپنی ماتحت خاتون ملازم کو جنسی ہراسانی کے الزامات کا سامنا تھا۔ مسجد کی اراضی مندر کو حوالے کرتے ہوئے وہ نہ صرف جنسی ہراسانی کیس میں بے قصور قرار دیئے گئے بلکہ چیف جسٹس سے سبکدوشی کے فوری بعد راجیہ سبھا کی رکنیت بطور تحفہ پیش کی گئی۔ جسٹس گوگوئی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ 9 نومبر 2019 ء کو فیصلہ کے بعد انہوں نے ساتھی ججس کو فائیو اسٹار ہوٹل میں ڈنر پارٹی دی جس میں ان کی پسندیدہ شراب سرو کی گئی۔ رنجن گوگوئی نے کتاب میں ڈنر کی تصویر شائع کرتے ہوئے اسے ’سلیبریشن‘ یعنی جشن لکھا ہے، جس سے ان کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب میں یہ لکھنا چاہئے تھا کہ فیصلہ کس کے دباؤ یا اشارہ پر دیا گیا۔ سپریم کورٹ سے غنیمت تو الہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا جس میں اراضی کی تین حصوں میں تقسیم کی سفارش کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد اگر مسلمان جمہوری انداز میں سڑکوں پر نکل آتے تو فیصلہ واپس ہوسکتا تھا، جس طرح شاہ بانو کیس میں ہوا تھا۔ مٹھی بھر کسانوں نے 380 دن تک سڑک پر بیٹھ کر مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور تمام مطالبات کو منواکر کامیاب گھر واپسی کی جارہی ہے۔ عزم و حوصلہ کے ساتھ جنون نے کسانوں کو کامیابی دلائی ۔ مخلص اور دیانت دار قیادت کے نتیجہ میں کسان کامیاب ہوئے لیکن مسلم قیادتوں نے بابری مسجد تحریک کے آغاز سے ہی مصلحت اور بعض نے سودہ بازی کے ذریعہ تحریک کو نقصان پہنچایا۔ ظاہر ہے کہ جب قیادت میں بکاؤ افراد شامل ہوجائیں تو قوم سے جرأت مندی کی امید کرنا فضول ہے۔ افسوس کہ مسلمان نئی ایماندار قیادت تیار کرنے کے بجائے آزمودہ قیادت کو زندہ لاشوں کی طرح کاندھے پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ جس وقت بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے دو حصے ہوئے ، اسی وقت سودے بازی اور مفادات کے ٹکراؤ کی بو آنے لگی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے صحیح طریقہ سے اپیل تک نہیں کی گئی، پھر کیا تھا سپریم کورٹ کا فیصلہ مسلمان قیادتوں کیلئے ایک بہانہ بن گیا تاکہ مسجد کو بھلادیا جائے ۔ گزشتہ دنوں 6 ڈسمبر کو ایکشن کمیٹی اور رابطہ کمیٹی کے علاوہ مسجد کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والے قائدین میں سے کسی نے بھی یوم سیاہ کی اپیل تک نہیں کی۔ اپنی نسلوں کو مسجد کا غم تازہ رکھنے کی وصیت کرنے والوں کو بھی 6 ڈسمبر یاد نہیں رہا۔ سارے ملک میں 6 ڈسمبر عام دنوں کے طرح گزر گیا ۔ مسلم قیادتوں کی بے حسی پر افسوس نہیں بلکہ ماتم کا وقت ہے۔ 6 ڈسمبر کو پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا لیکن دونوں ایوانوں میں کسی مسلم جماعت یا مسلمانوں کی ہمدردی کا دم بھرنے والی کسی سیکولر جماعت نے بھی بابری مسجد کی شہادت کو یاد نہیں کیا ۔ کسی مسلم رکن نے سیاہ پٹی لگاکر مسجد کے غم کو تازہ کرنے کا حوصلہ نہیں دکھایا۔ حالانکہ شرعی اعتبار سے مسجد تا قیامت آسمان تک مسجد برقرار رہتی ہے۔ روز قیامت یقیناً بابری مسجد بارگاہ الٰہی میں فریاد کرے گی کہ تیرے نام لیوا مجھے سجدگاہ سے بت خانہ میں تبدیل کرنے کا تماشہ دیکھتے رہے۔ مسلمانوں کی بے حسی کے نتیجہ میں فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ متھرا کی مسجد میں مورتیاں رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اب تو قطب مینار کامپلکس میں مورتیاں رکھنے کی تیاری ہے۔ اترپردیش کے ایک وزیر نے مسلمانوں کو متھرا کی مسجد ہندوؤں کے حوالے کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کے پارلیمانی حلقہ واراناسی میں مودی کے دورہ سے قبل راستہ کی تمام عمارتوں کو زعفرانی رنگ میں رنگ دیا گیا اور ایک مسجد بھی زعفرانی ہوگئی ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب فرقہ پرستوں کو ہرا رنگ دیکھنا بھی پسند نہیں ہے اور وہ ہر چیز کو زعفرانی عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یوگی نے اپنے سیاسی گرو کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ واراناسی کو زعفرانی کردیا گیا ہے ۔ بی جے پی حکومت کو دراصل مساجد کی شناخت بھی باقی رکھنا منظور نہیں ہے ۔ مساجد سے اذان پر اعتراضات پہلے ہی سے چل رہے ہیں اور کھلے مقامات پر نمازوں کی اجازت سے انکار کیا جارہا ہے ۔ گڑگاؤں میں ہر جمعہ کو نماز جمعہ کے موقع پر احتجاج کیا جاتا ہے ۔ گڑگاؤں میں حکومت کی جانب سے 108 مقامات پر نماز کی اجازت تھی جو گھٹاکر 37 کردی گئی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران فرقہ پرستوں کے دباؤ کے بعد یہ تعداد محض 18 ہوچکی ہے۔ ہمیں جاپان کے عوام کو بھولنا نہیں چاہئے جو ہر سال ناگاساکی اور ہیروشیما پر امریکہ کے ایٹمی حملہ کی یاد پابندی سے مناتے ہیں لیکن افسوس کہ ہم نے چند برسوں میں بابری مسجد کو فراموش کردیا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو مسلمانوں کا حال اسپین کی طرح ہوگا۔ راز الہ آبادی کا یہ شعر مسلمانوں کی موجودہ صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
پہلے پر کاٹ کر ہم کو بے پر کیا
اب زباں پر بھی پہرے لگانے لگے