چار ذاتیں اور مودی

   

پی چدمبرم ۔سابق مرکزی وزیر داخلہ
ہندوستان میں ذات پات کا نظام اس قدر مستحکم ہے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود اس نظام کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور جہاں تک ہمارے ملک میں ذات پات کا سوال ہے عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ہندوستان میں چار ذاتیں ہیں درحقیقت یہ چار ورناس VARNAS اور بے شمار ذاتیں پائی جاتی ہیں باالفاظ دیگر ہزاروں ذاتیں ہیں جہاں تک چار روناس کا سوال ہے وہ، برہمن، شتریہ، ویشیا اور سدرا ہیں، خود ساختہ ونام نہاد ’’اچھوت‘‘ کو سدرا کے بھی نیچے رکھا گیا ہے جنہیں اب دلت کہا جاتا ہے، اگر دیکھا جائے تو ذات پات کا یہ نظام یا VARNAS ہندوستان کے لئے تکلیف دہ اور نقصان دہ رہے۔ اس کے نتیجہ میں ذات پات کی درجہ بندی تعصب و جانبداری اور امتیاز الگ الگ روزگار و ملازمتوں یا پیشوں کا رجحان وجود میں آیا۔ یہاں تک کہ ذات پات کے اسی نظام کے باعث ملک کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی کو ترقی کے ثمرات میں شامل نہیں کیا گیا یعینی ترقی کے ثمرات سے محروم رکھا گیا۔ اس لئے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں جس میں انہوں نے چار ذاتوں کی ایک طرح سے تشکیل عمل میں لائی۔ انہوں نے چار ذاتوں کے ضمن میں غریبوں، نوجوانوں، خواتین اور کسانوں کا حوالہ دیا۔ اگرچہ لفظ ذات کو میں پسند نہیں کرتا اس کے باوجود اب ہمیں خود اپنے آپ سے متعلقہ سوال پوچھنے دیجئے کہ مسٹر مودی کے ہندوستان میں یہ چار ذاتوں کی حالت کیا ہے اور وہ کیسی ہیں؟ کیسے زندگی گذاررہی ہیں مختلف شعبوں میں ان کا موقف کیا ہے؟ سب سے پہلے بات کرتے ہیں غربا کی۔
ملک میں غریب کیسے ہیں؟ : یو این ڈی پی نے ملک میں غریبوں کی تعداد کے بارے میں جو اعداد و شمار جاری کئے۔ اس کے مطابق ہمارے ملک میں 228 ملین لوگ غریب ہیں (یعنی ملک کی جملہ آبادی کا 16 فیصد حصہ) انتہائی غربت کے پیمانہ کی بنیاد پر یہ تخمینہ پیش کیا گیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ شہری علاقوں میں فی فرد کی کمائی ماہانہ 1286 اور دیہی علاقوں میں فی کس آمدنی ماہانہ 1089 (غریبوں کی آمدنی) رہی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ کانگریس کے دور اقتدار میں جو فراخدلانہ معاشی پالیسی اختیار کی گئی اور 1991 میں جس طرح معیشت کو مختلف شعبوں بالخصوص سرمایہ کاروں کے لئے کھول دیا گیا اس کا اچھا اثر یہ ہوا کہ لاکھوں ہندوستانی غربت کی زد میں آنے سے بچ گئے یا محفوظ رہے لیکن ڈیٹا کے اہم ترین نکات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ آبادی کے نچلی سطح پر جو 50 فیصد حصہ ہے اس کے پاس ملک کے اثاثوں کا صرف 3 فیصد حصہ ہے۔ بالفاظ دیگر 50 فیصد آبادی کے ہاتھوں میں ملک کی صرف 3 فیصد دولت پائی جاتی ہے اور یہ وہ حصہ ہے جس نے ملک کی آمدنی کا صرف 13 فیصد حصہ کمایا ہے۔ اگر ہم ملک میں بچوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ملک کے 32.1 فیصد بچے کم جسمانی وزن کا شکار ہیں یعنی ان بچوں کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے جو ہونا چاہئے نہیں ہے بلکہ وہ under-weight ہیں ۔ ملک کے 19.3 فید بچے مختلف جسمانی نقائص کا شکار ہیں اور 35.5 فیصد بچے ایسے ہیں جن کی جسمانی نشونما رک سی گئی ہے۔ باالفاظ دیگر ناقص غذا یا غذا نہ ملنے کے نتیجہ میں وہ ٹھٹھرسے گئے ہیں۔ ملک میں غریبوں کا کتنا برا حال ہے اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 15 تا 49 سال عمر کی حامل 50 فیصد سے زائد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ حکومت نے یہ ضروری پایا کہ ملک کے 810 ملیں لوگوں (جملہ آبادی کے 57 فیصد حصہ کو) آئندہ 5 برسوں کے لئے فی کس 5 کیلو گرام مفت راشن فراہم کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے پر ناقص غذا اور بھوک کا دور دورہ ہے۔ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2023 (عظیم پریم جی یونیورسٹی) اور وقفہ وقفہ سے کئے جانے والے periodic labour force survey کے مطابق تین قسم کے ورکروں کی مابانہ آمدنی 2017-18 اور 2022-23 کے درمیان Constant prices میں پھنس کر رہ گئی اور صرف 16 فیصد آبادی کے غریب رہنے کا جو تخمینہ لگایا گیا ہے وہ کم ہے۔
نوجوانوں کی حالت زار: ہندوستان کی آدھی آبادی 28 سال سے کم عمر والوں کی ہے۔ پی ایل ایف ایس کے مطابق (جولائی 2022۔ جون 2023 ) کے دوران 15-19 سال عمر کے لوگوں میں بیروزگاری کی شرح 10.0 فیصد (دیہی علاقوں میں 8.3 اور شہری علاقوں میں 13.8 فیصد) رہی۔ اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا رپورٹ 2023 کے مطابق 25 سال عمر کے گریجویٹس میں بیروزگاری کی شرح 42.3 فیصد رہی اور UR میں گراوٹ آئی کیونکہ گریجویٹس کی عمریں بڑھنے لگی (انہوں نے ملازمتوں کے لئے طویل انتظار کیا) لیکن 30-34 سال عمر کے گریجویٹس میں تک بیروزگاری کی شرح 8-9 فیصد درج کی گئی۔ بیروزگاری کی اونچی شرح کا اثر داخلی مائگرینس (نقل مکانی) کی شکل میں دیکھا گیا۔ جرائم، تشدد اور منشیات کے استعمال کے اضافہ کی شکل میں دیکھا گیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی ن ے یہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت سالانہ دو کروڑ ملازمتیں دے گی۔ وہ صرف ایک جملہ ثابت ہوا۔ جولائی 2023 میں پارلیمنٹ میں ایک تحریری جواب دیتے ہوئے حکومت نے انکشاف کیا کہ مارچ 2022 میں سرکاری محکموں میں 9,64,359 جائیدادیں مخلوعہ تھیں لیکن حکومت کے پاس بیروزگاری میں بے تحاشہ اضافہ کی کیا وجوہات ہیں اس کا کوئی جواب نہیں کیونکہ ملک کے نوجوانوں میں بیروزگاری خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
خواتین کی حالت زار : جہاں تک ملک کی آبادی میں خواتین کے حصہ کا سوال ہے خواتین ملک کی آبادی کا نصف حصہ ہے اور خواتین کی پسماندگی کے لئے کئی عوامل ذمہ دار ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں خاص طور پر قدامت پسند سماجی و تہذیبی اور ثقافتی اصول و ضوابط، کم تعلیم، کم جائیداد، بے تحاشہ بیروزگاری،صنفی امتیاز اور خواتین کے خلاف جرائم کی بھرمار وغیرہ وغیر NCRB کی رپورٹ (ڈسمبر 2023) کے مطابق خواتین کے خلاف جرائم میں 2021 کی بہ نسبت 2022 میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے اور سال 2022 میں خواتین کے خلاف جرائم کے 4,45,000 مقدمات درج کئے گئے۔ زیادہ تر جرائم ارکان خاندان کے ظلم و جبر گھریلو تشدد، اغواء، جنسی حملوں ریپ (عصمت ریزی) اور جہیز کے مطالبات سے متعلق تھے۔ صنفی تفاوت اور امتیاز زندگی کے ہر شعبہ میں پایا گیا خاص طور پر آمندنی میں، مرد جزوقتی ورکرس خاتون، جزوقتی ورکروں کی بہ نسبت 48 فیصد زیادہ کماتے ہیں اسی طرح باقاعدہ اجرت پانے والے مرد ورکر باقاعدہ اجرت پانے والی خاتون ورکروں سے 24 فیصد زیادہ کمائی کرتے ہیں۔ اگر ہم شہری خواتین میں ورکروں کی آبادی کی شرح کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ 21.9 فیصد ہے اور مردوں میں یہ شرح 69.4 فیصد پائی جاتی ہے۔ افرادی قوت کی شراکت سے متعلق شرح شہری خواتین میں 24.0 فیصد ہے۔ اس کے برعکس مردوں میں یہ شرح 73.8 فیصد ہے۔ عالمی بینک کے مطابق 2004-05 اور 2011-12 کے درمیان 19.6 ملین خواتین نے افرادی قوت کو خیرباد کہہ دیا۔ خواتین کے ساتھ اس طرح کے امتیازی سلوک و تفاوت کو نظرانداز کرنے کا مطلب یہی ہیکہ کئی دہوں سے خواتین کو دبایا جارہا ہے۔ ملک میں کسانوں کی حالت بھی بہت خراب ہے۔ حکومت ان کے بہبود کے دعوے کرتی ہے لیکن اس کے دعوے کھوکھلے ہیں۔