کاغذی پھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی

,

   

جان ہے تو جہان ہے … مودی بھول گئے اپنا نعرہ
2022 ء خوش آمدید…کورونا سے کورونا تک

رشیدالدین
’’جان ہے تو جہان ہے ‘‘ یہ نعرہ وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا کی پہلی لہر کے موقع پر جنتا کرفیو کے اعلان کے وقت دیا تھا۔ جس وقت یہ نعرہ لگایا گیا حکومت کے پاس انسانی جان کی قدر و منزلت تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ الٹ گیا۔ جان ہے تو جہان ہے کا نعرہ حکومت کے لئے ’’جہان ہے تو جان ہے‘‘ میں تبدیل ہوگیا اور عوامی زندگی کو حکومتوں کے کام کاج پر قربان کیا جانے لگا۔ کورونا کی پہلی لہر کے گزرتے ہی عوام کی زندگی کے تحفظ سے حکومت کی دلچسپی کم ہوگئی اور اب جبکہ تیسری لہر نے ملک پر دستک دی ہے ، انسانی زندگی کی اہمیت یکسر ختم ہوگئی۔ اگرچہ ماہرین نے اومی کرون وائرس کے بارے میں وارننگ دی ہے لیکن حکومتوں کا بے حسی کا رویہ برقرار ہے۔ اب حالت یہ ہوگئی کہ حکومتوں نے وائرس سے بچاؤ کے اقدامات سے خود کو بری الزمہ کرتے ہوئے عوام پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اپنی حفاظت آپ کرلیں۔ دستور کے اعتبار سے تعلیم اور صحت حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہیں لیکن آج دستور کا پاس ولحاظ باقی کہاں ہے۔ حکومت جب عوام کا تحفظ نہیں کرسکتی تو اسے اقتدار پر رہنے کا اخلاقی جواز نہیں ہے۔ جنتا کرفیو کے بعد طویل لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا لیکن دواخانوں میں بہتر علاج کی سہولتوں میں کمی کے سبب اموات کا یہ عالم تھا کہ ایک مرحلہ پر سینکڑوں نعشوں کو گنگا میں بہا دیا گیا ۔ اس قدر بھیانک اور تلخ تجربہ کے باوجود تیسری لہر سے نمٹنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ اخبارات اور ٹی وی چیانلس کے ذریعہ اپیل کردینے سے ذمہ داری کی تکمیل نہیں ہوگی بلکہ حکومت کو بچاؤ کے قواعد نافذ کرنا ہوگا۔ نئے سال کا استقبال ہمیشہ ترقی اور خوشحالی کی امیدوں اور توقعات کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن ہندوستان کے بشمول ساری دنیا نے کورونا کی اومی کرون ویرینٹ کے خوف کے سائے میں نئے سال 2022 ء میں قدم رکھا۔ عوام کو امید تھی کہ نیا سال خوشیوں کے ساتھ آئے گا اور گزشتہ سال کے تلخ تجربات ایک برے خواب کی طرح بھلا دیئے جائیں گے لیکن 2022 ء بھی کورونا کی نذر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ سال ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خاندان بے سہارا ہوگئے ، ہزاروں خواتین بیوہ اور بچے یتیم ہوگئے کیونکہ کورونا نے ان کے اپنوں کو چھین لیا تھا ۔ نفسا نفسی کا یہ عالم تھا کہ خونی رشتے اور قرابت دار بھی دور بھاگ رہے تھے۔ ہر کسی نے اپنے کسی قریبی کو کھو دیا۔ کورونا مریضوں اور فوت ہونے والوں کی میتوں کو لیجانے والی ایمبولنس کے سائرن کی آواز آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔ کوئی ایمبولنس دکھائی دے تو گزشتہ سال کا موت کا کھیل نظروں میں گھوم جاتا ہے۔ معیشت کی تباہی نے کروڑہا افراد کو روزگار سے محروم کردیا ۔ بے شمار صنعتیں اور تجارتی ادارے بند ہوگئے ۔ الغرض پہلی اور دوسری لہر نے غم اور تباہی کی ایک داستان رقم کی ہے۔ عوام صورتحال سے ابھی ابھر نہیں پائے تھے کہ ہندوستان پر تیسری لہر نے دستک دی جو آنے والے چند ہفتوں میں اپنا اصلی رنگ دکھائے گی ۔ 2021 ء کورونا کے ساتھ مہنگائی کا سال رہا۔ پریشان حال اور مصیبت زدہ عوام کو راحت پہنچانے کے بجائے حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کچھ ایسا اضافہ کیا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ بیروزگاری اور مہنگائی کے اعتبار سے 2021 ء عوام کیلئے کسی ڈراونے خواب سے کم نہیں تھا ۔ نئے سال 2022 ء کے آغاز کے ساتھ ہی اومی کرون ویرینٹ نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے تیسری لہر کا آغاز کیا ہے۔ کیا 2022 ء گزشتہ سال کی طرح کورونا کی نذر ہوجائے گا ؟ پہلی اور دوسری لہر کے مطابق اس مرتبہ حکومت اور عوام دونوں سطح پر لاپرواہی عروج پر ہے۔ کووڈ قواعد پر عمل آوری کا کوئی تصور نہیں ہے۔ حکومت میں شامل افراد ہوں یا پھر عہدیدار وہ خود قواعد کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ جن کو عوام کیلئے رول ماڈل بننا تھا ، جب وہی خلاف ورزی کریں تو عوام سے پابندی کی توقع کرنا فضول ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عوام کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا تاکہ اس بہانے آبادی میں کمی واقع ہو۔ آبادی کم کرنے کیلئے کوئی اسکیم اور پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی ، شائد یہ کام کورونا کے حوالے کردیا گیا۔ دواخانوں میں بستروں کی تعداد میں اضافہ اور آکسیجن کی تیاری مسئلہ کاحل نہیں ہے۔ احتیاط ، علاج سے بہتر کے مصداق حکومت کو احتیاطی تدابیر کے نفاذ پر توجہ دینی چاہئے تاکہ ہاسپٹل جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے ویکسین کس حد تک اثر انداز ہے، اس بارے میں قطعی طور پر کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن حکومتوں نے ٹیکہ اندازی مہم کو تشہیر کا ذریعہ بنادیا ہے۔ تلنگانہ کے بشمول کئی ریاستوں نے ویکسین کی پہلی خوراک کی صد فیصد ٹیکہ اندازی کا دعویٰ کیا ہے جوکسی مذاق سے کم نہیں۔ سماج میں ہر طرف ایسے افراد مل جائیں گے جنہوں نے ایک بھی ٹیکہ نہیں لیا ، پھر بھی حکومت صد فیصد کا دعویٰ کرتے ہوئے دنیا کی واہ واہی لوٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس طرح کی فرضی اور بناوٹی اعداد و شمار پیش کرنے والی حکومتوں پر اعتبار کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ اومی کرون کے قہر سے بچنے کیلئے بعض ریاستوں نے نائیٹ کرفیو نافذ کیا لیکن تلنگانہ حکومت تحدیدات کے بجائے عوام کو سال نو کا جشن منانے کی ترغیب دے رہی ہے۔ شراب کی دکانات اور بارس کو رات دیر گئے تک کھلا رکھنے کی اجازت دی گئی ۔ عوام کی صحت کچھ ہوجائے لیکن شراب کی آمدنی سے حکومت سرکاری خزانہ بھرنا چاہتی ہے۔ تحدیدات کے بارے میں ہائی کورٹ کے احکامات کو بے خاطر کرتے ہوئے حکومت نے عوامی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کی کوشش کی ہے۔ سرکاری خزانہ کی فکر کرنے والی مرکز اور ریاستی حکومتیں کورونا سے متعلق حقیقی صورتحال کی پردہ پوشی کرتے ہوئے عوام کو تاریکی میں رکھنا چاہتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور حکومت کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ ایسے وقت جبکہ ملک کو کورونا کی تیسری لہر نے گھیر لیا ہے، انتخابات کو ملتوی کرنے کے بجائے تمام جماعتیں الیکشن کمیشن پر دباؤ بنارہی ہے کہ پانچ ریاستوں میں مقررہ وقت پر الیکشن کرایا جائے۔ مقررہ وقت پر الیکشن کا شوشہ سب سے پہلے مرکز کی بی جے پی حکومت نے چھوڑا۔ اترپردیش ، پنجاب ، اتراکھنڈ اور منی پور میں بی جے پی نے انتخابی مہم کو عروج پر پہنچادیا ہے ۔ نریندر مودی اور امیت شاہ نہیں چاہتے کہ مہم میں کوئی رکاوٹ ہو۔ انتخابات کے التواء کی صورتحال میں موجودہ لہر کو برقرار رکھنے میں دشواری ہوسکتی ہے، لہذا عوام کی زندگی کی پرواہ کئے بغیر پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کی تیاریاں شروع کردی گئیں۔ ویسے بھی کورونا کی تیسری لہر کا ابھی آغاز ہوا ہے ، گزشتے سال کورونا جب عروج پر تھا، مرکز نے اس وقت بھی پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کو منسوخ نہیں کیا تھا۔ کورونا کی وباء کے درمیان مودی اور امیت شاہ نے مغربی بنگال ، کیرالا ، آسام ، ٹاملناڈو اور پڈوچیری میں ریالیوں کا اہتمام کیا تھا۔ اس مرتبہ ورچول ریالیوں کی تجویز پیش کی گئی ہے لیکن عملاً یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ گزشتہ سال کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن بھی انتخابات کے التواء کے بارے میں جرأت مندانہ فیصلہ کرنے کے موقف میں دکھائی نہیں دیتا۔ بی جے پی کے علاوہ دیگر جماعتوں نے بھی الیکشن کی تائید کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ الیکشن کو کم از کم دو ماہ کے لئے ملتوی کیا جاتا تاکہ تیسری لہر کے اثر میں کمی واقع ہوتی۔ دراصل سیاسی جماعتوں کے پاس اقتدار اور کرسی اولین ترجیح بن چکی ہے۔ بی جے پی کو اترپردیش میں شکست کا خوف لاحق ہوچکا ہے اور وزیراعظم کی جانب سے لاتعداد ریالیوں کے باوجود عوام کا رجحان تبدیلی کے حق میں دکھائی دے رہا ہے۔ اکھلیش یادو اور پرینکا گاندھی کی کامیاب ریالیوں نے بی جے پی کی نیند اڑادی ہے۔ بی ایس پی سے اتحاد کے بغیر تنہا مہم چلانے کے باوجود اکھلیش یادو کی مقبولیت میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے ۔ دوسری طرف پرینکا گاندھی کا ’’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘‘ کا نعرہ خواتین میں کافی مقبول ہوچکا ہے۔ ہندوستانی سماج میں خواتین کو دیوی اور بھگوان کے روپ میں دیکھا جاتا ہے ، لہذا خواتین پرینکا گاندھی کے نعرے کو طاقت کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری میں ہیں۔ اکھلیش اور پرینکا اگر انتخابی مفاہمت کرلیں تو پھر یوگی ادتیہ ناتھ کی گھر واپسی یقینی ہوجائے گی۔ اترپردیش میں ہزاروں کروڑ کے ترقیاتی کاموں کے اعلان کے باوجود بی جے پی نے فرقہ وارانہ ایجنڈہ کا سہارا لیا ہے ۔ نفرت کے سوداگروں کو ملک بھر میں سرگرم کردیا گیا ۔ آج تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والے اب قومی قائدین کو نشانہ بنارہے ہیں۔ مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا گیا لیکن نریندر مودی اینڈ کمپنی نے مذمت تک نہیں کی۔ گاندھی جی کے خلاف نازیبا الفاظ کا استعمال اور انہیں ملک کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دینے کے باوجود بی جے پی کے کسی قائد نے زبان نہیں کھولی۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام سرگرمیاں بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں۔ بی جے پی کی تائید کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھتیس گڑھ پولیس کی جانب سے نام نہاد مہاراج کو گرفتار کئے جانے پر اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے اعتراض جتایا ۔ نامور شاعر مظفر وارثی کا یہ شعر حالات کی ترجمانی کرتا ہے ؎
صرف رنگوں سے بھی رس نہیں ٹپکا کرتا
کاغذی پھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی