کانگریس منشور پروزیر اعظم کا رد عمل

   

بھول جائیں گے ہمیں اہلِ جہاں معلوم ہے
اک کہانی بن کے آخر ہم بیاں ہو جائیں گے
کانگریس پارٹی نے کل اپنا انتخابی منشور جاری کیا ۔ کانگریس نے اس میں سماج کے تمام اہم طبقات کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی بات کی ہے ۔ کانگریس نے ان تمام اقدامات کی نفی کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے جن کے نتیجہ میںسماج میںنراج کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے یا ہونے لگی ہے ۔ اقلیتوں کیلئے کانگریس نے خاص طور پر کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے ۔ ہجومی تشدد کو ختم کرنے کی بات کہی گئی ہے ۔ ماورائے عدالت اقدامات کو ختم کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ پارٹی نے اپنے منشور میں کہا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے اعتبار سے عمل کرنے کی آزادی حاصل رہے گی ۔ کانگریس نے بلڈوزر انصاف کا خاتمہ کرنے کا عہد بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ کانگریس پارٹی اگر مرکز میں برسر اقتدار آتی ہے تو پھر الیکٹورل بانڈز اسکام کی تحقیقات کروائی جائیں گی ۔ پی ایم کئیرس فنڈ کی تحقیقات ہونگی ۔ کانگریس نے اس کو بھی ایک اسکام قرار دیا ہے اور کہا کہ جو کچھ بھی پالیسیاں اور اقدامات مودی حکومت کے عوام مخالف رہے ہیں ان کی تحقیقات کروائی جائیں گی ۔ ان اقدامات اور پالیسیوں کو تبدیل کردیا جائیگا ۔ کسی بھی پارٹی کو انتخابات سے قبل عوام سے رجوع ہوتے ہوئے اپنے منشور کی اجرائی کا اختیار ہے ۔ ہر جماعت ایسا کرتی ہے ۔ خود بی جے پی بھی منشور جاری کرتی ہے ۔ اب کانگریس کے منشور پر وزیر اعظم نے بنیادی اور اہمیت کے حامل مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے منفی سوچ و فکر اختیار کی ہے اور اس منشور پر بھی فرقہ وارانہ سیاست کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ کانگریس کے منشور کو آزادی سے قبل مسلم لیگ کی سوچ کا عکاس قرار دیتے ہوئے مودی نے ماحول کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے منشور میں شامل دیگر مسائل کو کمیونسٹ اور بائیں بازو کے نظریات سے تعبیر کیا ہے ۔ انہوںنے مودی حکومت کے تعلق سے کانگریس نے جو کچھ کہا ہے اور جو کچھ کرنے کے منصوبے ظاہر کئے ہیں ان کے تعلق سے کسی طرح کا رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ان مسائل پر لب کشائی سے گریز کرتے ہوئے ملک کے عوام کی توجہ بھی ہٹانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیںکہ ماحول کو ابھی سے فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی روایت کو برقرار رکھا جائے ۔ ایسا بہت پہلے سے کیا جاتا رہا ہے اور انتخابات کے موسم میں یہ عام روایت ہے ۔
ملک میں الیکٹورل بانڈز اسکیم واقعتا ایک طرح کے اسکام کی شکل اختیار کرچکی تھی ۔ کئی کمپنیوںنے اپنی جملہ مالیت سے زیادہ چندے دئے ہیں اور یہ سارے چندے بی جے پی کو حاصل ہوئے ہیں۔ بی جے پی عوامی سطح پر بیف پر امتناع کی بات کرتی ہے لیکن بیف ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں نے بھی بی جے پی کو چندہ دیا ہے ۔ کئی کمپنیاں ایسی ہیںجن کا باضابطہ کوئی وجود نہیں ہے اور انہوںنے بھی سینکڑوں کروڑ روپئے کے چندے دئے ہیں اور یہ تقریبا سارے چندے بی جے پی کو حاصل ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر کانگریس نے تحقیقات کااعلان کیا ہے ۔ وزیر اعظم کو اگر کانگریس کے منشور پر رد عمل دینا ہی تھا تو الیکٹورل بانڈ اسکام کے تعلق سے بات کرتے ۔ پی ایم کئیرس فنڈ کے تعلق سے انہیںوضاحت کرنے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ اس کی بجائے عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی ہمیشہ کی روایت کو بحال کردیا گیا ہے اور اس کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے اورانتخابات جیتنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے ۔ ایک طرح سے یہ انتہائی منفی سوچ ہے جو بی جے پی کے تقریبا تمام قائدین رکھتے ہیں اور ہر مسئلہ کو اسی نہج پر موڑتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کم از کم ملک کے وزیراعظم کو اس سے گریز کرنے کی ضرورت تھی اور یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ وہ منفیسوچ کے حامل نہیں ہیںبلکہ وہ تنقیدوں کامثبت انداز میں جواب دے سکتے ہیں تاہم ایسا نہیں کیا گیا ۔ منفی سوچ کو ہی برقرار رکھا گیا ہے ۔
کانگریس نے بلڈوزر انصاف کو ختم کرنے کی بات کی ہے ۔ ہجومی تشدد کو روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے ۔ یہ ماورائے عدالت اقدامات ملک میں گذشتہ دس برس میں عام ہوگئے تھے ۔ ان کو روکنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ نریندر مودی کو ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت میں ان وعدوں پر وضاحت کرنے کی ضرورت تھی ۔ ان کا جواب دینا چاہئے تھا ۔ یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ ان کی حکومت بھی ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گی ۔تاہم ایسا نہیں کیا گیا اور منفی سوچ کے ساتھ فرقہ وارانہ منافرت کو ہی ہوا دینے کی کوشش کی گئی ہے جو ملک کے وزیر اعظم کو ذیب نہیں دیتی ۔ نریندرمودی کو ایسا کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا ۔
کنگنا کی بکواس یا ایجنڈہ ؟
بی جے پی کی لوک سبھا امیدوارہ کنگنا رناوت اپنی بے تکی باتوں اور بکواس کیلئے شہرت رکھتی ہیں۔ اب انہوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نہیں بلکہ نیتاجی سبھاش چندر بوس تھے ۔ حالانکہ کئی گوشوں کی جانب سے اس بکواس کی مذمت کی گئی ہے لیکن یہ اندیشے ضرور پیدا ہونے لگے ہیں کہ یہ بکواس در اصل ایک ایجنڈہ کا حصہ ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی اکثر و بیشتر اس طرح کی بکواس کے ذریعہ عوامی موڈ کا پتہ چلانے کی کوشش کرنے میں مہارت رکھتی ہے ۔ کنگنا بالی ووڈ میں ناکامی کے بعد سیاست میں اپنی بکواس کے ذریعہ سرخیاں بٹورنے میں لگی ہیں۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ہندوستان 1947 میں نہیں بلکہ 2014 میں آزاد ہوا تھا ۔ اب انہوں نے ملک کے پہلے وزیر اعظم سبھاش چندر بوس کو قرار دیتے ہوئے ایک نیا موضوع چھیڑنے کی کوشش کی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ گوشوں کی جانب سے اس پر مباحث کا بھی آغاز کردیا گیا ہے ۔ یہ در اصل ایک ایجنڈہ کا حصہ ہے جس کے ذریعہ ملک کے تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور نئی کہانیاں گھڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس طرح کی کوششوں اور ان کی حمایت کرنے والوں سے ملک اور ملک کے عوام کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کی تاریخ مسخ کرنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ ایسے عناصر بھی اب ملک کی تاریخ پر بات کرنے لگے ہیں جن کی خود کوئی تاریخ نہیں ہے اور نہ ہی وہ ملک کی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اس طرح کے ایجنڈہ تیار کرنے کی مشنری کے خلاف ملک کے عوام کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔