کانگریس کی اسپیک اپ انڈیا مہم

   

ہمیں بھی دیکھ لو آثارِ منزل دیکھنے والو
کبھی ہم نے بھی دیکھا تھا غبارِ کارواں اپنا
کانگریس کی اسپیک اپ انڈیا مہم
ہندوستان میں کمزور اپوزیشن نے عوام کو بے طرح مسائل کا شکار کردیا ہے ۔ اکثر دیکھا جاتا رہا ہے کہ حکومتوں کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات سے عوام میں ناراضگی پیدا ہوتی ہے اور انہیںمسائل کاسامنا کرنا پڑتا ہے تاہم گذشتہ چھ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ ایک کمزور اپوزیشن کی وجہ سے عوام کو زیادہ مسائل ہو رہے ہیں یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کمزور اپوزیشن کی وجہ سے ہی عوام حالات کی مار سہنے پر مجبور ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے وجود کا احساس دلانے اور عوام میں یہ حوصلہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہیں کہ وہ عوامی کاز کیلئے پوری طاقت سے جدوجہد کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نریندرمودی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اپنے من مانی انداز سے کام کاج کو آگے بڑھاتی جا رہی ہے ۔ ابتدائی ایام میںجس طرح سے اختلافی اور نزاعی ایجنڈہ کو پروان چڑھایا گیا اور فیصلے کرکے عوام پر تھوپ دئے گئے اسی طرح معیشت کے میدان میں بھی حکومت نے ایسے فیصلے کئے جن کے نتیجہ میں سارا بوجھ عوام پر عائد ہوگیا ۔ معاشی میدان کے فیصلوں میں حکومت کا رول حالانکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مشکوک ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ کوشش اتنی شدت کے ساتھ نہیں کی گئی جتنی شدت سے کی جانی چاہئے تھی ۔ یہ اپوزیشن کی کمزوری ہی کا نتیجہ تھا ۔ اب جبکہ سارے ملک میں کورونا وائرس کے قہر کا سلسلہ چل رہا ہے اور اس بار بھی عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں اور وہی سارا بوجھ برداشت کر رہے ہیں تو ایسے میں بھی اپوزیشن کی کمزوری کا شدت سے احساس ہونے لگا تھا ۔ کانگریس نے شائد اس کو محسوس کرتے ہوئے حکومت کی ناکامیوںاور خامیوں کو اجاگر کرنے کیلئے اسپیک اپ انڈیا مہم کا آغاز کیا تھا ۔ یہ شروعات اچھی ضرور تھی لیکن یہ بھی اتنی شدت کے ساتھ آگے نہیں بڑھائی گئی جتنی شدت سے اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بھی حکومت کے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں جٹا پا رہے ہیں۔ اگر اپوزیشن کی صفوں سے کوئی جامع منصوبہ کے ساتھ ایسی کوشش ہوتی ہے تو غالب امکان ہے کہ عوام بھی اس کا حصہ بن جائیں گے ۔
کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اس مہم کا آغاز کرتے ہوئے ملک کے تمام پارٹی قائدین کو اس میں حصہ لینے کی ہدایت کی تھی ۔ کانگریس قائدین نے ضابطہ کی تکمیل کیلئے تقریبا وہی جملے دہرائے جو پارٹی صدر سونیا گاندھی یا سابق صدر راہول گاندھی دہراتے رہے ہیں۔ بیشتر قائدین نے تو اس میں شائد حصہ بھی نہیں لیا ہے ۔ کورونا وائرس کی وباء کے دوران راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے کچھ حد تک حکومت کو نشانہ بنانے کی کوشش ضرور کی لیکن یہ کوشش بھی محض ضابطہ کی تکمیل ہی محسوس ہوئی ۔ ایسی کوششوں میں شدت کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ فی الحال ملک میں کسی طرح کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں ہے اور کوئی عوامی احتجاج یا مظاہرے نہیں کئے جاسکتے لیکن لاک ڈاون کے دوران آن لائین مہم پوری شدت سے شروع کی جاسکتی تھی اور عوام اس سے آن لائین ہی جڑ سکتے تھے ۔ اس کو بتدریج آگے بڑھایا جاسکتا تھا ۔ حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کو بتدریج عوام میں منظم انداز میں پیش کرتے ہوئے رائے عامہ ہموار کی جاسکتی تھی لیکن جو موقع اسپیک اپ انڈیا کے ذریعہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس کو ضائع کردیا گیا ۔ اس کا صحیح معنوں میں فائدہ حاصل کرنے میں کانگریس پارٹی یا اس کے قائدین ناکام رہے ہیں۔ یہ شائد اس وجہ سے ہے کہ خود کانگریس کو بھی اپنی کمزوروں کا احساس ہے لیکن یہ تاثر اب عام ہوتا جا رہا ہے کہ کانگریس ہو یا دوسری اپوزیشن جماعتیں ہوں انہیں اپنی کمزوری کا احساس ضرورت سے زیادہ ہوگیا ہے ۔
جو غیر کانگریسی اپوزیشن جماعتیں ہیں انہوں نے بھی اپنے آپ کو ایک طرح سے حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا ہے ۔ حکومت کے خلاف موقف اختیار کرنے کی یا شدت کے ساتھ اس کو عوام میں ظاہر کرنے کی ان جماعتوں میں جراء ت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ اسپیک اپ انڈیا مہم حالانکہ کانگریس نے شروع کی تھی لیکن دوسری جماعتیں بھی اس سے جڑسکتی تھیں لیکن ان جماعتوں نے بھی خاموشی ہی کو ترجیح دی اور حکومت کو حسب سابق من مانی انداز میں کام کرنے کا موقع ہی مل گیا ۔ اب جبکہ مودی حکومت کی دوسری معیاد کا ایک سال پورا ہوا ہے اب بھی اپوزیشن کیلئے موقع ہے کہ وہ خود میں حوصلہ پیدا کریں اور ایک طویل و صبر آزما جدوجہد کیلئے خود کو تیار کرلیں تاکہ عوام میں جو دبی دبی ناراضگی ہے اس کو ابھارا جاسکے ۔