کبھی کشمیر جاتا ہے، کبھی بنگال کٹتا ہے

   

کشمیر کی تقسیم … آر ایس ایس ایجنڈہ
بابری مسجد اراضی … اگلا نشانہ

رشیدالدین

انسانیت ، جمہوریت اور کشمیریت ۔ اٹل بہاری واجپائی نے کشمیر مسئلہ کے حل اور کشمیریوں کے زخم پر مرہم رکھنے کیلئے یہ نعرہ لگایا تھا۔ نریندر مودی نے اپنی دوسری میعاد میں دفعہ 370 کی برخواستگی کے ذریعہ اس نعرہ کو ختم کردیا۔ خصوصی موقف کی برخواستگی سے نہ ہی جمہوریت اور نہ ہی کشمیریت باقی رہی ۔ عوام کو وادی میں عملاً نظربند کرتے ہوئے انسانیت کا بھی خاتمہ کردیا گیا۔ دفعہ 370 کی منسوخی کا بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا کہ حکومت اٹل بہاری واجپائی کے راستہ پر گامزن ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران نریندر مودی نے کہا تھا کہ انسانیت ، کشمیریت اور جمہوریت کو داغدار ہونے نہیں دیا جائے گا لیکن پارلیمنٹ میں قانون سازی کے ذریعہ تینوں کو شرمسار کردیا گیا۔ کیا یہی جمہوریت ہے کہ عوام کو قید کر کے دستور میں دی گئی مراعات کو یکلخت ختم کردیا جائے ۔ اس فیصلہ کے لئے وادی میں آخر کس سے رائے حاصل کی گئی۔ لوک سبھا میں اکثریت کے دم پر سنگھ پریوار اور آر ایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل کیا گیا ۔ کیا انسانیت یہی ہے کہ عوام کو روز مرہ کے راشن سے محروم کردیا جائے ۔ طبی اور دیگر بنیادی خدمات کو معطل کرتے ہوئے حکومت نے اپنا فیصلہ مسلط کیا۔ جمہوریت کیا یہی ہے کہ جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غیر دستوری انداز میں کشمیریت کو ٹھیس پہنچائی جائے۔ نریندر مودی نے اپنی دوسری میعاد کے آغاز کے ساتھ ہی آر ایس ایس ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز کردیا۔ پارلیمنٹ کے حالیہ سیشن میں کئی متنازعہ بلز کو منظوری دی گئی ۔ انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کے تحت NIA کو زائد اختیارات، طلاق ثلاثہ بل اور پھر کشمیر کے خصوصی موقف کی برخواستگی کا قانون۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کو ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کے ذریعہ ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی کافی جلدی ہے۔

رام مندر اور یکساں سیول کوڈ پر عمل آوری باقی رہ جائے گی۔ بابری مسجد کی شہادت کی آئندہ برسی تک رام مندر کی تعمیر کا منصوبہ تیار کرلیا گیا۔ ایودھیا میں اراضی ملکیت معاملہ کی سپریم کورٹ میں روزانہ سماعت جاری ہے۔ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نومبر میں ریٹائرڈ ہورہے ہیں اور اس وقت تک امید ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ آجائے گا۔ الغرض بی جے پی حکومت بالخصوص مودی ۔ امیت شاہ جوڑی اکثریت اور اقتدار کے نشہ میں چور غرور و تکبر کی علامت بن چکی ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ان کا ہاتھ پکڑ کر روک نہیں پائے گا۔ گورنر جموں و کشمیر ستیہ پال ملک خصوصی موقف کے بارے میں عوام کو دلاسہ دیتے رہے لیکن دوسری طرف انتہائی رازداری سے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ جب کشمیر ہی باقی نہ رہا تو پھر کشمیریت کہاں باقی رہی۔ کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کرتے ہوئے قانون سازی کی گئی جو حکومت کی بزدلی اور فیصلہ کو عوامی مخالفت کا کھلا ثبوت ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گورنر کے ترجمان نے تین ماہ کے غذئی اجناس کے اسٹاک کی بات کہی۔ یعنی کہ خود حکومت کو تین ماہ تک حالات نارمل ہونے کا یقین نہیں ہے۔ صورتحال کو بہتر دکھانے کیلئے قومی سلامتی مشیر اجیت دول کو کشمیر میں لوگوں سے ملتے اور ساتھ کھانا کھاتے ہوئے دکھایا گیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اجیت دول نے سادہ لباس لوگوں کے ساتھ کھانا کھایا جبکہ میڈیا عوام کے ساتھ کھانے کا تاثر دے رہا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ کشمیر کے حالات سدھارنے کیلئے ریٹائرڈ عہدیدار کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کسی برسر خدمت عہدیدار کو مامور کیا جاتا۔ خصوصی موقف کی برخواستگی اور ریاست کی تقسیم سے کشمیریوں کا مستقبل اور ان کی شناخت ختم کردی گئی۔ پھر بھی کشمیریت کے تحفظ کا نعرہ برقرار ہے۔ جب ایک ملک ایک قانون ، ایک دستور ہونا چاہئے تو پھر اس کا اطلاق صرف کشمیر پر کیوں ؟ بعض دیگر ریاستوں پر کیوں نہیں؟ ہماچل پردیش ، ناگالینڈ ، سکم ، منی پور ، آسام اور میزورم میں دستور کے مطابق خصوصی موقف دیا گیا ہے ۔ کوئی بیرونی شخص وہاں جائیداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی وہ مستقل سکونت اختیار کرسکتا ہے ۔ نریندر مودی اور امیت شاہ ملک کو جواب دیں کہ دفعہ 371 ان ریاستوں میں کب منسوخ کی جائے گی ؟ جس کے بعد ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ان ریاستوں میں تمام حقوق حاصل ہوں گے ۔ صاف ظاہر ہے کہ کشمیر آر ایس ایس ایجنڈہ کے سبب نشانہ پر ہے۔ بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ مل کر تقریباً تین سال تک حکومت کی۔ اس وقت کشمیر کے خصوصی موقف اور ریاست کی تقسیم کا خیال کیوں نہیں آیا۔ بی جے پی کے حوصلے میں اضافہ کے لئے محبوبہ مفتی برابر کی ذمہ دار ہیں جنہوں نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس جیسی سیکولر جماعتوں کی تائید کو ٹھکرا کر بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا۔ وہ چیف منسٹر کی حیثیت سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نریندر مودی سے کچھ زیادہ ہی امیدیں وابستہ کرچکی تھیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ صرف نریندر مودی مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرسکتے ہیں۔ اب جبکہ کشمیر ریاست اور کشمیریت باقی نہیں رہی تو پھر رونے سے کیا فائدہ ؟

کشمیر کی صورتحال پر گورنر ستیہ پال ملک نے مرکز کو انتہائی دیانتداری کے ساتھ رپورٹ پیش کردی تھی۔ ستیہ پال ملک کا شمار روشن خیال قائدین میں ہوتا ہے جن کا بیاک گراؤنڈ سنگھ پریوار کا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں امن و ضبط کی صورتحال کو بہتر قرار دیا اور کہا تھا کہ حریت کانفرنس حکومت سے بات چیت کے لئے تیار ہے۔ سرینگر میں سنگباری کے واقعات میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ گورنر نے اپنی رپورٹ کے ذریعہ مرکز کو بالواسطہ طور پر کشمیری تنظیموں سے بات چیت کا مشورہ دیا لیکن دہلی میں کچھ اور منصوبہ عمل آوری کیلئے تیار تھا۔ گورنر کی رپورٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کردی گئی اور صدر جمہوریہ نے منظوری دے دی ۔ ستیہ پال ملک جب کبھی بھی کشمیر کے حالات پر زبان کھولیں گے، حقیقی صورتحال سامنے آئے گی۔ بی جے پی اور امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ 370 کی برخواستگی سے کشمیر کے عوام خوش ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر کشمیر کے لاکھوں عوام کو گھروں میں محروس کیوں رکھا گیا ؟ پابندیوں کو ختم کرتے ہوئے انہیں کھلی فضاء میں گھومنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے ۔ کشمیر کے تمام سیاسی اور دیگر قائدین گرفتار کیوں ہیں؟ اب تو یہاں تک اطلاعات مل رہی ہیں کہ کشمیری قائدین کو آگرہ کی جیل میں منتقل کیا گیا۔ کشمیر میں مواصلاتی نظام ٹھپ ہوچکا ہے۔ ٹیلیفون ، انٹرنیٹ اور دیگر سہولتیں مفلوج کردی گئیں۔ کشمیر کی صحیح ترجمانی وہاں سے واپس ہونے والے سیاحوں نے کی جن کا کہنا تھا کہ کشمیر کو پتھروں کے دور میں واپس کردیا گیا ہے۔

کشمیری عوام کو یہ احساس ستانے لگا ہے کہ ان کی شناخت ختم کرنے کی سازش کے طور پر یہ کھیل کھیلا گیا۔ اترپردیش کے بی جے پی رکن اسمبلی نے جس انداز میں کشمیری خواتین سے متعلق بیان دیا ہے، کیا اسی توہین کیلئے خصوصی موقف برخواست کیا گیا ؟ دفعہ 370 کی برخواستگی کے ذریعہ بی جے پی حکومت نے کشمیر کے ساتھ دغابازی کی ہے۔ کشمیریوں نے ملک کی تقسیم کے وقت پاکستان کو ہجرت کرنے کے بجائے ہندوستان سے اپنا مستقبل وابستہ کیا جس کا صلہ انہیں دفعہ 370 کی برخواستگی کے ذریعہ دیا گیا۔ کشمیر ہندوستان کا تاج ہے اور ہندوستان نے اپنا تاج خود نکال لیا ہے۔ اس طرح ملک کا سر اپنے تاج کے بغیر ننگا ہوچکا ہے۔ دنیا بھر میں کشمیر کی شناخت جنت نشاں کی حیثیت سے ہے لیکن بی جے پی نے ووٹ بینک کی خاطر اسے دوزخ بنادیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے حکومت کے فیصلہ کو درست قرار دینے کی کوشش کی۔ مودی کے اس خطاب کو جموں و کشمیر کے علاوہ ملک کے دیگر عوام نے دیکھا۔ کشمیر میں لوگ مودی کے خطاب سے اس لئے محروم رہے کیونکہ وہاں مواصلاتی نظام مفلوج کردیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی نے کس کو سنانے کیلئے خطاب کیا۔ مودی کے خطاب کے ساتھ ہی گودی میڈیا حرکت میں آگیا اور دیش بھکتی کا لیبل لگاکر مودی کی ستائش کی جانے لگی۔ ایک ٹی وی چیانل نے یہاں تک کہہ دیا کہ نریندر مودی موجودہ وقت کے سردار پٹیل ہیں جنہوں نے کشمیر کو پاکستان کے قبضہ سے قبل بچالیا ہے۔ مودی کا اگلا نشانہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کو حاصل کرنا ہے۔ سیاسی مبصرین نے مودی کی تقریر کو مایوس کن قرار دیا کیونکہ وہ اپنی تقریر میں دفعہ 370 کی برخواستگی کی وجوہات بیان کرنے میں ناکام رہے۔ وہ حکومت کے فیصلہ کے حق میں دلائل پیش نہ کرسکے۔ صرف تیقنات اور خوشحالی کے خواب دکھاکر کشمیریوں کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ کل تک دہشت گردی اور علحدگی پسندگی کے لئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا لیکن اب نریندر مودی نے 370 کو دہشت گردی اور علحدگی پسندی کی اصل جڑ قرار دیا۔ ہر مرض کی دوا 370 اور ہر بیماری کی وجہ 370 ہوگئی۔ نریندر مودی کی تقریر وزیراعظم کے عہدہ کی شایان شان نہیں تھی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے مرکزی زیر انتظام علاقہ کا کوئی نو وارد چیف منسٹر یا کسی شہر کا میئر خطاب کر رہا ہے۔ ان کی تقریر غیر معیاری اور بچکانی تھی جو کشمیریوں کو ہرگز مطمئن نہ کرسکی۔ مودی کی تقریر کے اسکرپٹ رائٹر س قدر تنگ نظر ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بقرعید کے بجائے مودی نے صرف لفظ عید کا استعمال کیا ۔ 370 کی برخواستگی کے بعد قومی سطح پر امیت شاہ چھا گئے اور احساس کمتری کو برتری میں بدلنے کیلئے مودی نے قوم سے خطاب کیا۔ 370 کی برخواستگی کے ذریعہ شکاری خود اپنے جال میں پھنس چکا ہے۔ آنے والا وقت حقیقی صورتحال کو پیش کرے گا۔ منور رانا نے کیا خوب کہا ہے ؎
سیاسی وار بھی تلوار سے کچھ کم نہیں ہوتا
کبھی کشمیر جاتا ہے، کبھی بنگال کٹتا ہے