کرتارپور راہ داری

   

ان کی آنکھوں سے یاریاں نہ گئیں
دل سے اب تک خماریاں نہ گئیں
کرتارپور راہ داری
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرتار پور راہ داری کے موضوع پر مذاکرات کا دوسرا دور ایک مثبت پیشرفت ہے ۔ دونوں ملکوں میں کشیدگی پائی جاتی ہے مگر مذہبی امور پر جب دونوں جانب بات چیت کو ضروری سمجھا گیا تو ایک تعمیری قدم اٹھاتے ہوئے دونوں جانب کے حکام نے مذاکرات کی میز تک پہونچکر ایک خوشگوار فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پاکستانی وفد کی قیادت کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان اور ڈائرکٹر جنرل جنوبی ایشیا ڈاکٹر محمد فیصل نے مذاکرات کو مثبت قرار دیا ۔ بات چیت کے ذریعہ باہمی مسائل کی یکسوئی کو یقینی بنائے جانے کا ثبوت کرتار پور راہ داری مذاکرات سے ملتا ہے ۔ اس بات چیت میں دونوں ملکوں کے حکام نے 80 فیصد سے زائد معاملات پر اتفاق کیا ہے ۔ دونوں وفود نے ان 80 فیصد معاملات کے بارے میں تفصیلات تو واضح نہیں کئے مگر یہ مذاکرات واقعی ہندوستان اور پاکستان کو دیگر مسائل کی یکسوئی کی جانب توجہ دلانے میں معاون ثابت ہوں تو یہ خوش آئند بات ہوگی ۔
ہندوستان کے یاتریوں کو پاکستان میں عقیدے کی اس راہ داری کے ذریعہ امن کا پودا لگانے کے ساتھ اس کی بازیابی کی بھی دعا کرنی ہوگی ۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی بحالی وقت کا تقاضہ ہے ۔ کرتار پور راہ داری مذاکرات کے ذریعہ پاکستانی حکام نے اصولی طور پر پاکستان کی طرف دریائے راوی اور زیرو لائن کے درمیان موجود کھاڑی پر پل بنانے سے اتفاق کیا گیا ہے ۔ پاکستان کے جذبہ کی قدر کرتے ہوئے ہندوستانی حکام نے دستاویز کا مجموعہ بھی پاکستانی حکام کے حوالے کیا ہے جس میںکہا گیا کہ پاکستان میں موجود بعض افراد یا ادارے ہندوستانی یاتریوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں ۔ اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔
پاکستان کو اس دستاویز میں ظاہر کردہ اندیشوں کو دور کرنے کے لیے احتیاطی اقدامات کرنے ہوں گے ۔ پاکستانی وفد نے اگرچیکہ ہندوستانی حکام کے ان اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے یقین دہانی تو کرادی کہ ہندوستان کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ وزارت داخلہ ہندوستان کی جانب سے بھی جو بیان دیا گیا ہے اس پر اتفاق ہونا ایک اچھی تبدیلی ہے ۔ کرتار پور راہ داری کے لیے یہ مذاکرات یقینا دونوں جانب کے عوام کے لیے بھی ایک خوشی کا پیغام ہے ۔
پاکستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ مذاکرات انتہائی اہم اور بڑا قدم سمجھے جارہے ہیں ۔ اگر دونوں جانب کی حکومتیں اپنے موقف میں نرمی لائیں تو امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے لیکن مودی حکومت کے تقریبا پانچ سال بات چیت کے بغیر تلخیوں سے دوچار رہے اب دوسری میعاد میں مودی حکومت کو پڑوسی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے کرتار پور راہ داری معاون ثابت ہوتی ہے تو اس سے کئی توقعات پورے ہوں گے ۔ یہ راہ داری دونوں ہمسایوں کے تعلقات میں مضبوطی لائے گی ۔ اس خطہ میں امن کی کمی کی سب سے زیادہ بھاری قیمت دونوں جانب کے عوام ادا کررہے ہیں ۔ عوامی روابط میں بدترین مشکلات پیدا کردی گئی ہیں ۔ اب جب کہ دونوں جانب حالات بہتری کی جانب آگے بڑھ رہے ہیں تو اس جذبہ کو مزید تقویت دیتے ہوئے باہمی تعلقات کو پہلے سے زیادہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم پاکستان عمران خاں نے بھی مصالحانہ لب و لہجہ اور دوستی کے لیے آگے بڑھنے کا اشارہ دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ انہیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور ہندوستان کے مطالبات کا احترام کرتے ہوئے انہیں پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔۔