کرناٹک‘ ایڈورپا کا آڈیو ٹیپ

   

تجاہل ، تغافل ، تبسم ، تکلم
یہاں تک تو پہونچے وہ مجبور ہوکر
کرناٹک‘ ایڈورپا کا آڈیو ٹیپ
کرناٹک میں جے ڈی ایس ۔ کانگریس مخلوط حکومت کے خلاف سازشیں پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ریاست میں بی جے پی کے سربراہ بی ایس ایڈورپا چیف منسٹری کا عہدہ سنبھالنے کیلئے بے چین ہیں۔ ماضی میں جب کانگریس کے اس وقت کے صدر سیتارام کیسری نے مرکز میںتشکیل حکومت کیلئے درکار تائید کے بغیر صدر جمہوریہ سے ملاقات کی تو اس وقت کہا گیا تھا کہ ضعیف العمر شخص جلد بازی میںہے ۔ اب یہی حال ایڈورپا کا دکھائی دیتا ہے ۔ وہ بھی ایوان اسمبلی میںاپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکامی کے باوجود دوبارہ گدی حاصل کرنے کیلئے بے چین ہیں اورا س کیلئے وہ کسی بھی سطح تک جانے کو تیار ہیں۔ گذشتہ تقریبا ایک ماہ سے کرناٹک میںارکان اسمبلی ایک عجیب و غریب صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کا شکار کرنے کی ہر طرح کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ انہیں کروڑہا روپئے کے لالچ دئے جا رہے ہیں۔ وقفہ وقفہ سے اس تعلق سے انکشافات کئے جا رہے ہیں۔ مسلسل الزامات عائد کئے جا رہے تھے کہ جے ڈی ایس اور کانگریس کے ارکان اسمبلی کو بی جے پی کی جانب سے لالچ دئے جا رہے ہیں۔ بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتی رہی تھی ۔ دو دن قبل چیف منسٹر کمارا سوامی نے ایک آڈیو ٹیپ پریس کانفرنس میںجاری کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ ایڈورپا نے جے ڈی ایس رکن اسمبلی کو 50 کروڑ روپئے کی لالچ دی تھی ۔ ایڈورپا نے پہلے تو اس ٹیپ کے اصلی ہونے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی کسی سے بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔کمارا سوامی نے کہا تھا کہ اگر یہ ٹیپ غلط ثابت ہوجائے تو وہ سیاست سے سبکدوش ہوجائیں گے ۔ اب ایڈورپا نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس ٹیپ میں جو آواز ہے وہ ان کی ہی ہے ۔ انہوں نے ایک بنگلے میں جے ڈی ایس رکن اسمبلی کے فرزند سے ملاقات کی تھی ۔ تاہم انہوں نے کسی رشوت کی پیشکش یا لالچ سے اب بھی انکار کیا ہے ۔ تاہم ان کے ٹیپ کے حقیقی ہونے کے اعتراف نے واضح کردیا ہے کہ بی جے پی ریاست میں اپنا اقتدار قائم کرنے کیلئے کس قدر بے چین ہے اور وہ کانگریس ۔ جے ڈی ایس ارکان اسمبلی کو خریدنے کیلئے بھی تیار ہے ان ارکان اسمبلی کو کروڑ ہا روپئے کے لالچ تک دئے جا رہے ہیں۔ انہیں وزارتی عہدوں کی لالچ دی جا رہی ہے ۔ یہ سب کچھ جمہوریت کے اصولوںکے مغائر ہے اور اس کے نتیجہ میں اقتدار کی ہوس کا اظہار ہوتا ہے ۔ ایڈورپا ماضی میں بھی ریاست کے چیف منسٹر رہے ہیں اور وہ گذشتہ انتخابات کے بعد بھی واحد بڑی جماعت ہونے کے ناطے چیف منسٹر بنائے گئے تھے لیکن وہ ایوان میں اپنی اکثریت تمام تر کوششوںکے باوجود بھی ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے ۔ اس ناکامی کے باوجود وہ ریاست میں چیف منسٹری کا عہدہ حاصل کرنے کیلئے بے چین دکھائی دیتے ہیں اور اس کیلئے کروڑہا روپیہ خرچ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ اس سے ایک اور بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح انتخابات کا مقابلہ کرنے کیلئے پیسے کی طاقت استعمال کی جاتی ہے اسی طرح حکومتوں کے قیام کیلئے بھی پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے ۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس طریقہ سے قائم ہونے والی حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود کیلئے نہیںہوتیں بلکہ یہ اقتدار کی ہوس پوری کرنے کیلئے ہوتی ہیں اور ان حکومتوں میں بھی کرپشن اور بدعنوانیاں عام ہوتی ہیں۔ ایڈورپا پر ماضی میں بھی کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔ اسی وجہ سے انہیں چیف منسٹری کے عہدہ سے استعفی دینا پڑا تھا ۔ پھر وہ بی جے پی سے علیحدہ ہوگئے تھے ۔ علیحدہ پارٹی قائم کی تھی ۔ انتخابات میں مقابلہ کیا تھا لیکن ناکامی ہاتھ آئی تھی اور پھر اقتدار کیلئے وہ بی جے پی میں دوبارہ شامل ہوگئے اور اب بھی کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کرناٹک میںپیش آنے والے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اقدار اور اصولوںکی دہائی دینے والے بھی اقتدار کیلئے کس قدر بے چین ہوتے ہیں۔ انہیں اقتدار کیلئے اقدار اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھنے میں کوئی عار محسوس نہیںہوتی ۔ اب جبکہ ایڈورپا نے خود یہ اعتراف کیا ہے کہ ٹیپ میں جو آواز ہے وہ ان کی ہی ہے اور انہوں نے جے ڈی ایس رکن اسمبلی کے فرزند سے ملاقات بھی کی تھی تو ریاست کے عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی قائدین اقتدارکیلئے کس حد تک جاسکتے ہیں۔