کرناٹک کے باغی قائدین

   

میں جانتا ہوں کہ میری بساط کتنی ہے
تُو جانتا ہے میں کتنے ترے دباؤ میں ہوں
کرناٹک کے باغی قائدین
سیاسی پارٹیوں کے اندر باغیانہ سرگرمیاں نئی بات نہیں ہیں لیکن کرناٹک کانگریس اور گوا کانگریس قائدین کی بغاوت نے ہندوستانی سیاست کے اقدار کو پامال کردیا ہے ۔ کرناٹک باغیوں نے سپریم کورٹ میں اپنے استعفیٰ کو قبول کرنے کی عرضی داخل کی کہ وہ زبردستی اسمبلی اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے ۔ کرناٹک اسمبلی کے اسپیکر نے ان باغی ارکان اسمبلی کے استعفیٰ کو مسترد کردیا تھا ۔ سپریم کورٹ کی سماعت کے دوران باغی ارکان کے وکیل سابق اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے اپنے موکلوں کے موقف کی حمایت میں جو بحث کی اس کے نتائج ہندوستانی سیاست پر کئی سوالیہ نشان لگائیں گے اور آگے چل کر بات بات پر بغاوت کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔ کسی بھی حکومت کو گرانا آسان ہوجائے گا جو پارٹی اقتدار سے محروم ہوگی وہ برسر اقتدار آنے والی حکمراں طاقت کو کمزور کرنے کے لیے باغیانہ ذہن کے حامل لیڈروں کو اکسانے کا کام کرتے ہوئے حکومتوں کو بیدخل کردینے کا ناپاک عمل شروع ہوگا ۔ کرناٹک ، گوا ، ہماچل پردیش میں جو کچھ ہوا ہے اس کے پیچھے بڑی قومی پارٹی کا ہاتھ ہونا یقینی مانا جاسکتا ہے ۔ ایک منتخب حکومت کو اقلیت میں تبدیل کردینا سیاسی اخلاق کے مغائر ہے ۔ حکومت کی بقا کے لیے خطرہ پیدا ہونے والے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کانگریس جنتادل ایس کے باغی ارکان نے سپریم کورٹ سے اپنے فیصلہ کو حق بجانب قرار دینے کی استدعا کی تھی ۔ جنتادل ایس ، کانگریس اور دو آزاد ارکان نے استعفیٰ دیا ہے اگر ان تمام ارکان کے استعفیٰ قبول کئے جائیں تو پھر 224 رکنی اسمبلی میں مخلوط حکومت کی تعداد 118 سے گھٹ کر 100 ہوجائے گی اور حکومت برقرار رکھنے والے سادہ اکثریت 113 سے گھٹ کر 105 ہوگی جب کہ بی جے پی کے پاس 105 ارکان ہیں اس کو دو آزاد ارکان کی تائید حاصل ہوگی تو 107 ہوجائے گی ۔ سمجھا جارہا ہے کہ یہ سارا کھیل کرناٹک بی جے پی یونٹ کے قائدین کا ہے جو ایک مستحکم حکومت کو بیدخل کرنے کے لیے سیاسی اخلاق سے گرکر کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ سابق چیف منسٹر کرناٹک بی جے پی لیڈر یدی یورپا کو اقتدار کے بغیر بے چینی محسوس ہوتے دکھائی دے رہی ہے اس لیے انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ 4 تا 5 دن میں کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت تشکیل دیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اسمبلی اسپیکر نے اس وقت جو دستوری موقف اختیار کیا ہے اس کو ناکام بنانے کے لیے غیر دستوری عمل کرنے کی سازش میں کامیابی حاصل کی جاسکے گی ۔ مخلوط حکومت نے ایوان میں اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے کل جمعرات کا دن آنے تک کرناٹک کے سیاسی حالات کو کروٹ لینے میں دیر نہیں لگے گی ۔ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اسپیکر کے احکام پر کئی سوال پیدا کرتے ہیں ۔ اگر باغیوں کے کے استعفیٰ قبول کرلیے گئے تو پھر بی جے پی کے پاس اکثریت ہوگی اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگی ۔ لیکن وہ اخلاقی طور پر حکومت کرنے کے تمام اقدار سے محروم ہوجائے گی ۔ جو پارٹی حکومت کرنے کے اخلاقی حق سے محروم ہوجائے گی وہ عوام کی خدمت کس طرح کرسکے گی اور عوام بھی ایسی حکومت کو کتنی مدت تک برداشت کرپائیں گے ، یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ کرناٹک میں ایک سال قبل جو حالات پیدا ہوئے تھے اس کا تسلسل یہی ہے کہ کوئی بھی پارٹی ایک مستحکم حکومت نہیں بنا پائے گی ایک منقسم خط اعتماد کے ذریعہ سیاسی پارٹیوں کو اقتدار پر مضبوطی سے برقرار رہنا مشکل ہوتا ہے ۔ ہندوستان کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس کو آج ایک علاقائی پارٹی سے بدتر صورتحال کا سامنا ہے ۔ کانگریس کی مسلسل ناکامیوں کی وجہ قیادت کا فقدان معلوم ہوتی ہے ۔ کرناٹک اور گوا میں جو کچھ ہوا ہے وہ راہول گاندھی کے صدر کانگریس کی حیثیت سے استعفیٰ کے بعد کانگریس قائدین میں مایوسی کا نتیجہ ہے ۔ جب پارٹی کا سربراہ ہی میدان چھوڑ دے تو اس پارٹی کے کارکن صبر سے کام نہیں لیں گے ۔ اپنے سیاسی مستقبل کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے یہ کارکن کسی بھی پارٹی میں شامل ہوجائیں گے اور یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا ۔ اس لیے کانگریس کو ایک مضبوط قیادت کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسی شخصیت جو پارٹی کے ماضی کا احیاء کرنے میں مددگار ثابت ہوجائے ۔