کروڑوں ملازمتوں کو خطرہ

   

کروڑوں ملازمتوں کو خطرہ
کورونا وائرس کی جو وباء ہے اس نے نہ صرف انسانی جسم کو مفلوج کیا ہے بلکہ اس نے دنیا بھر کی معیشت کو بھی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔ لاک ڈاون کی وجہ سے عام زندگی تھم سی گئی ہے بلکہ ٹہر سی گئی ہے ۔ لوگ گھروں میں بند ہوگئے ہیںاور انہیں باہر نکلنے کا موقع تک بھی نہیں مل پا رہا ہے ۔ تلاش معاش اور روزگار اس زندگی کی تلخ حقیقت ہے لیکن اس سے زیادہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ لوگ اس کیلئے بھی باہر نہیں نکل پا رہے ہیں۔ تلاش معاش پر بھی پابندی عائد ہوگئی ہے ۔لاک ڈاون کو ایک وقتی مرحلہ بھی قرار دیا جا رہا ہے جو آج یا کل ‘ جلد یا بدیر ختم ضرور ہوجائیگا لیکن اس کے جو اثرات ہیں ان کے تعلق سے کہا جا رہا ہے یہ انتہائی شدید اور دیرپا ہوسکتے ہیں۔ آج ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کورونا 2022 تک چل سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ اس وائرس کی وجہ سے ملک میں کروڑوں افراد کی ملازمتیں اور روزگار متاثر ہوسکتا ہے ۔ فی الحال تو سارا ہندوستان ہی گھروں میں بند ہے ۔ گنے چنے شعبہ جات ہیں جنہیں لازمی خدمات کے زمرہ میںرکھتے ہوئے چھوٹ اور استثنی دیا گیا ہے لیکن تلاش معاش اور روزگار کے تقریبا تمام ذرائع کو فی الحال مسدود کردیا گیا ہے ۔ لاک ڈاون کی وجہ سے بند کردیا گیا ہے ۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو ابھی سے اپنے روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ غیر منظم شعبہ کے جو ورکرس ہیں ان کا کوئی مستقل کام نہیںہوتا بلکہ جب تک ضرورت رہی ان کی خدمات سے استفادہ ہوتا ہے اور پھر انہیں جواب دیدیا جاتا ہے ۔ غیر منظم شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایک سے دوسرے مقام پر تلاش معاش کیلئے کوششیں کرتے رہتے ہیںاور لاک ڈاون نے ان کی ایسی تمام کوششوں کو بھی معطل کرکے رکھ دیا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ جو منظم شعبہ ہے وہ بھی اس لاک ڈاون کی وجہ سے بری طرح سے متاثر ہے ۔ چاہے آئی ٹی شعبہ ہو یا پھر صنعتیں ہوں یا پھر کارپوریٹ دفاتر ہوں یا چاہے جو کچھ بھی ہوں ۔ سبھی کچھ متاثر ہے ۔ کوئی سرگرمی یا کام برقرار نہیں رہا تھا ۔ اب تاہم قدرے معمولی سرگرمیاں بحال ہونے لگی ہیں۔
تاہم جو اندیشے ہیں وہ زیادہ تشویشناک کہے جاسکتے ہیں۔ غیر منظم شعبہ کے بعد منظم شعبہ میں بھی ملازمتوں کی محرومی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ابتداء میں کہا تھا کہ دس کروڑ کے قریب افراد روزگار سے محروم ہوجائیں گے اور ملک میں غربت و افلاس کا ایک نیا دور شروع ہوسکتا ہے ۔ اسی خیال کو ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو رام راجن نے بھی اپنی تائید فراہم کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ غیر منصوبہ بندی سے جو اقدامات کئے جا رہے تھے یا کئے گئے ہیں ان کے نتیجہ میں ملک میں کروڑوں افراد روزگار اور ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ فی الحال سارے ملک کی توجہ صرف کورونا وائرس کی وباء سے لڑنے پر لگی ہوئی ہے ۔ لوگ گھروں میں بند ہیں اور اپنے اور اپنے افراد خاندان اور اپنے شہر و اپنے ملک کو اس وائرس سے بچانے کی تگ و دو میں جٹے ہوئے ہیں۔ دیگر امور پر ان کی توجہ نہیں ہے ۔ لیکن جب اس وائرس کے پھیلاو پر قابو پالیا جائیگا اور صورتحال قدرے بہتر ہوگی اور لاک ڈاون میں نرمی کا سلسلہ شروع ہوگا تو پھر اصل مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ ملازمتوں کا ایک بحران اچانک امڈ سکتا ہے اور اس پر شائد فی الحال کسی کی بھی توجہ نہیں ہے ۔ یہی بات رگھو رام راجن نے بھی واضح کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ مودی حکومت کیلئے قابل قبول نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی رائے پر کسی نے بھی توجہ دینی ضروری نہیں سمجھی ۔
جہاں کانگریس نے اس مسئلہ پر وقفہ وقفہ سے حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور کہا ہے کہ صورتحال کو قابو سے باہر ہونے سے بچانے کیلئے ابھی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وہیں شیوسینا نے بھی اب اس مسئلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ کورونا سے نمٹنے کیلئے ساری توجہ اور توانائی یقینی طور پر صرف کی جانی چاہئے لیکن ہمیں مستقبل پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں ملک کے عوام کی بہتری کو بھی ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ جان بھی اور جہان بھی ۔ اسی نعرہ کے ساتھ عوام کی ملازمتوں اور روزگار کو بچانے پر توجہ کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔ چاہے منظم شعبہ ہو یا پھر غیر منظم شعبہ ہو سبھی کیلئے حکومت کو ایک جامع اور مبسوط منصوبہ اور حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے ۔