کسان احتجاج اور مرکز کا رویہ

   


تقریبا تین ہفتوں سے کسان دہلی اور اطراف کے علاقوں میں مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اقل ترین امدادی قیمت کو برقرار رکھا جائے اور مرکزی حکومت نے زراعت سے متعلق جو تین نئے قوانین تیار کئے ہیں ان کو واپس لیا جائے ۔ کسانوں کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت زراعت کے شعبہ میں بھی کارپوریٹ کی اجارہ داری کو یقینی بنانے کیلئے کام کر رہی ہے اور اس کیلئے کسانوں کے مفادات پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان قوانین کے ذریعہ مرکزی حکومت کسانوں کو کارپوریٹ طبقہ کے آگے سرنگوں دیکھنا چاہتی ہے ۔ مرکزی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے اورا سے اصلاحات کا نام دیا جا رہاہے ۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ مرکز کے نئے قوانین کسانوں اور زرعی شعبہ کے حق میں ہیں لیکن کسان اس دلیل کو ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ سابقہ قوانین کے مطابق ہی کام کیا جائے اور نئے قوانین کو واپس لیا جائے ۔ اس سارے احتجاج اور دعووں اور جوابی دعووں میں ایک بات یہ بہت واضح ہوجاتی ہے کہ مرکزی حکومت کسانوں کے اتحاد اور احتجاج کو بھی توڑنا چاہتی ہے ۔ اس کیلئے تمام غیر شائستہ طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں۔ پھوٹ ڈالو اور راج کرو کی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے ۔ سب سے پہلے تو کسانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہ خالصتانی ہیں اور اس احتجاج کو پاکستان کی تائید و حمایت حاصل ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک کے کسان اپنے حق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ اپنے جائز اور واجبی مطالبہ پر احتجاج کر رہے ہیں اور ان میں جوان ‘ بچے ‘ بوڑھے اور خواتین سبھی شامل ہیں اور انہیں خالصتانی یا پاکستان کے اشاروں پر کام کرنے والا قرار دینا در اصل کسانوں کی توہین ہے ۔ اس کے علاوہ ان کسانوں کو نکسل وادی بھی قرار دیا گیا ۔ کمیونسٹ جماعتوں سے تعلق کا الزام عائد کیا گیا ۔ یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے کسانوں کے احتجاج کو یرغمال بنالیا ہے ۔ یہ سارے ہتھکنڈے صرف کسانوں کے اتحاد و احتجاج کو توڑنے کیلئے کئے جا رہے ہیں جبکہ حقائق اس کے یکسر برخلاف ہیں۔
یہ حقیقت سارا ملک جانتا ہے کہ جب کبھی مرکز کی نریندر مودی حکومت کے خلاف عوام نے احتجاج شروع کیا ہے اور اس احتجاج کو عوامی تائید ملنی شروع ہوئی ہے حکومت اور اس کے کارندوں نے احتجاج کو بدنام کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا ہے ۔شاہین باغ کے تاریخی احتجاج کو بھی ملک مخالف احتجاج قرار دیا گیا تھا اور یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ بیرونی عناصر کی ایماء پر یہ احتجاج کیا جا رہا ہے ۔ یہ سارے الزامات بے بنیاد اور غلط ثابت ہوگئے تھے ۔ ہر موقع پر حکومت اپنی ناکامیوں اور خفیہ ایجنڈہ کو چھپانے کیلئے پاکستان کو گھسیٹ لاتی ہے ۔ قوم مخالف سرگرمیوں کا الزام عائد کیا جاتا ہے ۔ جبکہ احتجاج کرنے والے کسان اسی ملک کے ہیں اور یہ اپنے حق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہی وہ کسان ہیں جن کی محنت کے نتیجہ میں سارے ہندوستانیوں کی تھالی میں دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی ہے ۔ یہی وہ کسان ہیں جو زمین کا سینہ چیر کر اناج پیدا کرتا ہے ۔ یہی وہ کسان ہے جو سارے ملک کی معیشت اور جملہ گھریلو پیداوار میں ایک اہم رول اور بڑا حصہ ادا کرتا ہے ۔ مرکزی حکومت انہیں کسانوں کے مفادات کو کارپوریٹس کے سامنے گروی رکھنے کی تیاری کر رہی ہے ۔ کارپوریٹس کے مفادات کا تحفظ کرنے اور انہیں زرعی شعبہ میں بھی اجارہ داری فراہم کرنے کیلئے کسانوں کے مفادات پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے اور انہیں قربان کیا جا رہا ہے ۔ آج سارے ملک میں عوام کسانوں سے اظہار یگانگت کررہے ہیں اور ان کا ساتھ دیا جا رہا ہے ۔
مرکزی حکومت نے اس احتجاج کو روکنے کیلئے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسانوں کو مطمئن کرنے جیسی کوئی پیشکش کی ہے ۔ صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے من مانی الزامات عائد کرنے پر اکتفاء کیا جا رہا ہے ۔ کسانوں کا جہاں تک تعلق ہے وہ کئی مہینے تک احتجاج کرنے کی تیاری کرچکے ہیں اور ان کا جو اتحاد ہے اور ان کو جو تائید و حمایت عوام سے مل رہی ہے وہ بے مثال ہے ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملے میں انانیت کو ترک کرنے کی ضرورت ہے ۔ خالصتان یا پاکستان کا نام گھسیٹتے ہوئے حالات کا استحصال کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے کسانوں کو مطمئن کرنے اور ان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کسان اپنی محنت شاقہ کے ذریعہ ایک بار پھر کھیتوں کا رخ کرسکیں۔