کس کس سے ہم کہیں کہ وہ اوقات میں رہے

   

مودی کے 100 دن ۔ مخالف مسلم ایجنڈہ
پکچر ابھی باقی ہے‘‘ t مسلم قیادت ہوش میں آئے

رشید الدین

نریندر مودی حکومت نے 100 دن مکمل کرلئے۔ اس موقع پر حکومت کے کارناموں کی خوب تشہیر کی گئی۔ مودی نے اپنے وزراء کو مختلف علاقوں کو روانہ کیا تاکہ حکومت کی مدح سرائی کرتے ہوئے عوام کو تاثر دیا جائے کہ جو کچھ 70 برسوں میں نہیں ہوا، وہ مودی نے 100 دن میں کر دکھایا۔ ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ مودی نے 100 دن میں جو کیا، وہ سابق حکومتیں 70 سال میں نہیں کرسکیں۔ اٹل بہاری واجپائی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت کا بھی دور رہا لیکن اس وقت مودی کی طرح غیرجمہوری، غیردستوری اور من مانی فیصلے نہیں کئے گئے۔ اٹل بہاری واجپائی اور ان کے اطراف حلقے میں جہاں دیدہ افراد تھے، وہ جانتے تھے کہ ملک کی بھلائی کن فیصلوں میں ہے۔ ایک ریاست کے چیف منسٹر کو ملک کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کردیا گیا، ظاہر ہے کہ ایک علاقائی لیڈر کی سوچ بھی محدود ہوگی۔ کچھ یہی صورتحال ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ نوٹ بندی کے ناعاقبت اندیش فیصلے سے ملک کی معیشت کی تباہی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد جی ایس ٹی نے جیسے آخری کیل ٹھونک دی۔ دوسری میعاد میں معیشت میں گراوٹ عروج پر پہنچ گئی۔ اقتصادی بحران نے لاکھوں افراد کے روزگار کو خطرہ میں ڈال دیا۔ معاشی بحران سے قوم کی توجہ ہٹانے کیلئے فرقہ وارانہ نوعیت کے مسائل کو اُچھالا گیا۔ ہاں تو بات 100 دن کے کارناموں کی چل رہی تھی۔ نریندر مودی نے 100 دن کے کارناموں میں طلاق ثلاثہ پر پابندی اور کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کو اہمیت کے ساتھ پیش کیا جبکہ مرکزی وزیر پرکاش جاؤڈیکر نے انفرادی طور پر کسی کو دہشت گرد قرار دینے سے متعلق قانون کو بھی مودی کا کارنامہ قرار دیا۔ مودی حکومت 100 دن کے کارنامے کے طور پر جن اُمور کو پیش کررہی ہے، وہ مخالف مسلم ایجنڈہ کا حصہ ہے۔ تینوں کارناموں کے ذریعہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دیتے ہوئے شریعت میں مداخلت کی گئی۔ دفعہ 370 کی برخاستگی کے ذریعہ ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو تقسیم کردیا گیا۔ تیسرا کارنامہ انسداد غیرقانونی سرگرمیاں قانون ہے جس کے تحت تحقیقاتی ایجنسی کسی بھی انفرادی شخص کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قانون کے ذریعہ مسلم اقلیت کو ہی نشانہ بنایا جائے گا۔ سابق میں اس طرح کے جو دوسرے قوانین وضع کئے گئے تھے، ٹاڈا اور پوٹا ان کا زیادہ تر شکار مسلمان ہی ہوئے۔ بعض مقدمات میں آج بھی مسلم نوجوان جیل کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں جبکہ مودی کے برسراقتدار آتے ہی زعفرانی دہشت گردوں کے ’’اچھے دن‘‘ آگئے۔ یکے بعد دیگرے انہیں مقدمات سے برأت ملنے لگی۔ مودی حکومت اپنے ایک اور کارنامہ کو بھول رہی ہے اور وہ ہجومی تشدد میں نہتے اور بے قصور افراد کی ہلاکت ہے جس کا مقصد مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔

ہجومی تشدد کو روکنے میں حکومت ناکام ہوچکی ہے۔ مودی حکومت کا ایک اور اہم کارنامہ ملک کے قومی میڈیا کو ’’گودی میڈیا‘‘ میں تبدیل کرنا ہے جبکہ حق گو اور سچائی پیش کرنے والوں کے اطراف گھیرا تنگ کردیا گیا۔ مودی دور میں مخالفین کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں CBI اور ED کا جس طرح استعمال کیا گیا، اس کی مثال شاید ہی سابق میں ملتی ہو۔ مودی کے 100 دن میں مخالف مسلم ایجنڈہ کا یہ حال ہے تو باقی 4 سال 6 ماہ کیسے ہوں گے، اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ مودی نے 100 دن کی کارکردگی کو ’’ٹریلر‘‘ قرار دیتے ہوئے ریمارک کیا کہ ’’پکچر ابھی باقی ہے‘‘۔ جب ٹریلر اس قدر بھیانک ہو تو پھر پکچر کا کیا حال ہوگا۔ ویسے بھی سنگھ پریوار کے ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز مودی کی پہلی میعاد میں ہوچکا ہے۔ اب جبکہ مودی کو دوسری میعاد میں غیرمعمولی اکثریت حاصل ہوئی ہے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو ’’ہندو راشٹر‘‘ میں تبدیل کرنے کی سمت تیزی سے پیشرفت ہوسکتی ہے۔ مسلمانوں کی حب الوطنی پر پہلے سے سوال اُٹھتے رہے ہیں اور اب شہریت کو مٹانے کی سازش ہے۔ اِن حالات میں مزید چوکس اور چوکنا ہونے کے بجائے مسلم سیاسی اور مذہبی قیادتیں خوف اور اندیشے کے تحت مصلحتوں کا شکار دکھائی دے رہی ہیں اور اپنی حرکات و سکنات کے ذریعہ حکومت کے مقاصد کی تکمیل کررہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور قائدین کی مصلحت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک مذہبی جماعت نے آر ایس ایس سربراہ کی ستائش کردی تو دوسرے گروپ نے کشمیر مسئلہ پر حکومت اور مودی کی زبان میں بات کی ہے۔ ایسے وقت جبکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس تنظیم نے صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ کشمیر یقیناً ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس معاملے میں جب کوئی اختلاف نہیں ہے تو پھر کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ ملک میں کئی ہندو تنظیمیں بھی ہیں، وہ تو اس طرح کا کوئی بیان نہیں دے رہی ہیں تو پھر یہ کونسی مصلحت تھی کہ اٹوٹ حصہ کی بات دہرائی گئی۔ آگے چل کر کیا یہ بھی اعلان کریں گے کہ ہم ہندوستانی ہیں۔ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے مسئلہ پر یقینا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ پر ملک کے ساتھ کھڑا ہونا ہر کسی کی ذمہ داری ہے لیکن کشمیری عوام کے ساتھ کون کھڑا ہوگا۔ صرف زمین سے محبت اور وہاں بسنے والوں سے محبت کیوں نہیں۔ ہندوستان کا اٹوٹ حصہ کہنے کے ساتھ ساتھ اگر وہاں کی صورتحال کا ذکر ہوتا اور حکومت سے پابندیوں کو ختم کرنے کی بات کی جاتی تو بہتر ہوتا۔ کشمیر میں عوام اور عوامی قائدین محروس ہیں اور پابندیوں کا چہلم یعنی 40 دن مکمل ہوگئے۔ جس علاقہ کے عوامی نمائندے نظربند رہیں اور باہر کے قائدین کو وادی کے دورہ کی اجازت نہیں دی جائے، وہاں کے حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ مسلم تنظیموں بالخصوص مذہبی قیادتوں کا حال حسیناؤں جیسا ہوچکا ہے۔ وہ صرف تعریف اور توصیف کے علاوہ واہ واہی سننا پسند کرتے ہیں۔ تنقید انہیں برداشت نہیں اور ناک منھ چڑھانے لگتے ہیں۔ صرف تعریف نہیں بلکہ تنقید کو قبول کرنا چاہئے۔ جھوٹی تعریفوں اور واہ واہی نے کئی حکومتوں کو زوال سے دوچار کردیا اور اِداروں اور جماعتوں کو مقصد سے بھٹکا دیا۔

حکومت نے کشمیر کے خصوصی موقف کو ختم کرتے ہوئے ایسی ریاست کو تقسیم کردیا ہے جو مسلمان، ہندو اور بدھسٹ اتحاد کی عظیم مثال تھی۔ امیت شاہ اور ان کے ساتھی 370 کی برخاستگی پر ملک بھر میں عوام سے شاباشی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن نارتھ ایسٹ کے علاقوں کیلئے خصوصی موقف سے متعلق دفعات 370 اور 370A کو ہاتھ لگانے کیلئے تیار نہیں۔ جب ملک کی ایک ریاست کا خصوصی موقف ختم کردیا گیا تو پھر دیگر علاقوں کو یہ مراعات کس بنیاد پر دی جارہی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟ دراصل بی جے پی کو کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا تھا۔ جس طرح کشمیر میں مراعات حاصل تھیں، ٹھیک اسی طرح کی مراعات اور اختیارات نارتھ ایسٹ کی ریاستوں اور وہاں بسنے والے قبائل کو حاصل ہیں۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی کے آگے کے عزائم میں تبدیلیٔ مذہب پر امتناع اور یکساں سیول کوڈ سرفہرست ہیں۔ اگر تبدیلیٔ مذہب کا قانون وضع کیا جاتا ہے تو تبلیغی کام میں مصروف جماعتوں اور تنظیموں کو نام بدلنا پڑے گا۔ اس کا سیدھا اثر تبلیغی جماعت پر پڑے گا۔ اس کے علاوہ بی جے پی، کرسچین مشنریز کو نشانہ بنانا چاہتی ہیں۔ کشمیر کے عوام عملاً محروس ہیں اور اطلاعات کے مطابق بنیادی طبی سہولتیں اور اشیائے ضروریہ کی فراہمی بند کردی گئی، اس کے باوجود حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں اور قائدین کی خاموشی معنی خیز ہے۔ حکومت مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کشمیر کے حالات نارمل ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر یوم عاشورہ کے موقع پر ماتمی جلوس اور تعزیہ کی اجازت کیوں نہیں دی گئی۔ جب حالات نارمل ہیں تو پھر انٹرنیٹ اور دیگر سہولتیں بحال کیوں نہیں کی گئیں۔ درحقیقت دنیا بھر کیلئے نارمل حالات کا پروپگنڈہ ہے لیکن حقیقت غزہ پٹی اور مغربی کنارے کی صورتحال سے ابتر ہے۔ حکومت کے موقف کی تائید کرنے والے مسلم قائدین کو کم از کم کشمیر کے دورہ کی اجازت کا مطالبہ کرنا چاہئے تاکہ وہ صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ 370 کی برخاستگی کے بعد راہول گاندھی، غلام نبی آزاد اور دیگر قائدین نے کشمیر کا دورہ کرنے کی کوشش کی لیکن حکومت نے اجازت نہیں دی۔ دو مرتبہ ناکام کوشش کے بعد یہ قائدین بھی کشمیر مسئلہ پر خاموش ہوچکے ہیں۔ موجودہ حالات پر حیدر علوی نے کیا خوب کہا ہے:
بونے کھڑے ہوئے ہیں پہاڑوں کے سامنے
کس کس سے ہم کہیں کہ وہ اوقات میں رہے