کشمیری قائدین اور مرکز

   

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کی 8 ماہ کی حراست کے بعد رہائی عمل میں آنے پر کشمیر میں زیر حراست دیگر سیاستدانوں کی رہائی کی امید قوی ہوگئی ہے ۔ چند دن قبل فاروق عبداللہ کو رہا کیا گیا تھا ۔ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے بعد سے کشمیر کے کئی اہم قائدین کو مختلف قوانین کے حوالے سے حراست میں رکھا گیا تھا ۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی بھی ہنوز زیر حراست ہیں ۔ عمر عبداللہ کی گرفتاری اور حراست کے خلاف ان کی بہن سارہ پائیلٹ سپریم کورٹ سے رجوع ہوئیں تھیں لیکن عدالت عظمیٰ نے اس درخواست کو سماعت کے لیے قبول نہیں کیا ۔ کشمیر میں حکومت کی جانب سے سوشیل میڈیا ، انٹر نیٹ اور دیگر مواصلاتی نظام پر پابندی سے کئی مسائل پیدا ہورہے تھے ۔ سیکوریٹی وجوہات کے حوالے سے کشمیری عوام کو ماباقی دنیا سے منقطع کردیا گیا تھا ۔ اب دھیرے دھیرے صورتحال بہتر ہورہی ہے ۔ جیلوں میں بند دیگر سیاستدانوں کی رہائی کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے ۔ جن قائدین کو رہا کیا گیا انہیں پابند بھی کیا گیا کہ وہ باہر آنے کے بعد اشتعال انگیز تقاریر نہیں کریں گے ۔ کشمیر میں برسوں بعد اضطراب آمیز سکون دکھائی دے رہا ہے ۔ لیکن اب بھی اس وادی کے کئی مسائل زور پکڑ رہے ہیں ۔ کئی مسائل ایسے ہیں جو نظم و نسق کے لیے چیلنج بن رہے ہیں ۔ جموں و کشمیر کے سیاستدانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی ریاست کی ترقی ، شفافیت اور اس کی فکر کریں اور عوام کی ضروریات کی تکمیل کے لیے خود کو وقف کریں ۔ جموں و کشمیر میں جو کچھ حالات تبدیل ہوتے ہیں وہ آگے چل کر مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر نظم و نسق کے درمیاں ایک طویل تنازعہ کو جنم دیں گے لیکن یہاں کی سیاسی پارٹیوں کے لیے موجودہ حالات نازک ہیں کشمیر کی نمائندگی کرنے والی سیاسی پارٹیوں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ، پیپلز کانفرنس اور پیپلز موومنٹ اور قائدین جیسے عمر عبداللہ اس وقت ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہیں جس کے باہر آنے کے لیے انہیں کچھ غور و فکر کی ضرورت ہوگی ۔ آنے والے دنوں میں فاروق عبداللہ کی پارٹی کو کشمیری عوام کس نظریہ سے دیکھیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ فی الحال وادی کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کو شروع کرنا مشکل ہے کیوں کہ کشمیری عوام کی نظریں سیاسی پارٹیوں کا معیار کیا ہے یہ بعد میں معلوم ہوگا ۔ کچھ تو لوگ یہ ضرور کہیں گے کہ جموں و کشمیر کی کسی بھی پارٹی نے ریاست کے لیے خاص کام نہیں کیا ۔

دہلی میں جو بھی حکومتیں آئی ہیں ان کی جانب سے بھی کشمیری عوام کے حق میں خاص فیصلے نہیں کئے ۔ اسی لیے کشمیری عوام کی نظر میں ریاستی اور مرکزی حکومتوں کا تصور مختلف ہوسکتا ہے ۔ مرکز کی مودی حکومت نے 370 کو برخاست کر کے وادی کشمیر کے خود مختارانہ مطالبہ یا خصوصی موقف کو ہی ختم کردیا ہے اب یہ حکومت کشمیری قائدین سے یہ توقع کررہی ہے کہ یہ لوگ آرٹیکل 370 کی برخاستگی کی حمایت کریں گے ۔ عمر عبداللہ اور جموں و کشمیر کے دیگر قائدین سے مرکزی حکومت کو یہ امید کر سکتی ہے کہ ریاست کے بارے میں مرکز کے ہر اقدام کی تصدیق یا توثیق کرتے ہوئے اس کا ساتھ دیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ آیا جن قائدین کو حراست میں رکھا گیا تھا ان کا آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ آیا آگے چل کر یہ قائدین سیاسی طور پر بھی بے اختیار ہوجائیں گے ۔ یا ان کی سیاسی بصیرت ختم ہوجائے گی ۔ کشمیری قائدین ہی ہیں جو کشمیری عوام اور دہلی کے درمیان رابطہ کا کام کرتے رہے ہیں ۔ اب یہ قائدین ہی مرکز کے عتاب کا شکار بنا دئیے گئے ہیں تو ان کی رہائی کے بعد کے حالات کیا ہوں گے یہ غور طلب ہیں ۔ عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ کی رہائی کے بعد محبوبہ مفتی اور دیگر قائدین کی رہائی عمل میں لائی جاتی ہے تو کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا سوال برقرار رہے گا ۔